بلاول آئے، ’نمستے‘ ہوا اور چلے گئے!

0

صبیح احمد

ہندوستان کی میزبانی میں حالیہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کے حوالے سے لوگوں میں کافی گرمجوشی اور تجسس کا ماحول تھا۔ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ طویل مدت کے بعد موجودہ حالات میں پاکستان کے کسی اعلیٰ عہدیدار کی ہندوستان آمد سے دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدگی میں کمی لانے میں کچھ حد تک ضرور مدد ملے گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، بلکہ دونوں ہی وزرائے خارجہ کے بیانات غیر معمولی طور پر شدید اور تلخ رہے۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے عہدیدار اس طرح کی شعلہ بیانی کرتے رہتے ہیں، لیکن اس بار خاص بات یہ رہی کہ دونوں وزرائے خارجہ نے آمنے سامنے اس طرح کی بیان بازیاں کیں ورنہ عموماً اپنے اپنے ملکوں یا کسی دوسری جگہ پر ایک دوسرے کی لعن طعن کرتے رہے ہیں۔
درحقیقت بلاول کے اس دورے سے کسی غیر معمولی پیش رفت کی توقع ہی فضول تھی، کیونکہ ایجنڈے میں اس طرح کی کوئی بات شامل ہی نہیں تھی۔ یہ بین الاقوامی اجلاس تھا، کسی دو طرفہ بات چیت کی گنجائش نہیں تھی۔ حالانکہ اس طرح کے بین الاقوامی اجلاس کے سائڈ لائن میں اکثر دوطرفہ موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتے رہتے ہیں لیکن اس طرح کی بات چیت کے لیے بھی سفارتی سطح پر پیشگی تیاریاں ہوتی ہیں اور ایجنڈے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ 2 ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان اصل ایونٹ سے ہٹ کر سائڈ لائن میں اچانک دوطرفہ بات چیت ہوئی مگر حقیقت میں یہ سب اچانک نہیں ہوتا۔ اور بلاول کے دورئہ ہند کے لیے ایسی کوئی پیشگی تیاری نہیں تھی کہ ایس سی او کے اجلاس کے سائڈ لائن میں دوطرفہ بات چیت بھی ہو۔ یہ تو پاکستان کی مجبوری تھی کہ ایس سی او جیسی تنظیم کے اجلاس کو وہ بہر صورت نظر انداز نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ اس اجلاس میںاس کے دیرینہ دوست چین اور نئے دوست روس دونوں ہی شرکت کر رہے تھے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس اجلاس کی باگ ڈور چین کے ہی ہاتھ میں رہتی ہے، خواہ یہ کہیں بھی منعقد ہو۔ دنیا کے بدلتے ہوئے پس منظر اور توازن میں یہ بات کافی اہم ہے کہ 2 بڑی طاقتیں روس اور چین اس گروپ کا محور ہیں۔ اس لیے پاکستان کو ہر حال میں اس میں نمائندگی کرنی تھی۔ یہ دورہ وسیع تر دوطرفہ تناظر میں کافی غیر اہم ہے اور یہ تعلقات میں کسی قسم کی بہتری کی نمائندگی کے لیے نہیں تھا۔ اسے دو طرفہ نہیں بلکہ علاقائی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ ان کا مقصد دہلی کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کرنا نہیں تھا۔
ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فی الحال سیاسی یا سفارتی تعلقات ایسے نہیں ہیں کہ ان کے رہنما کسی قسم کی دوستی یا ہنی مون کی بات کریں۔ پاکستان کی داخلی سیاست ابھی اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتی کہ وہاں کے حکمراں ہندوستان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی کا مظاہرہ کرے۔ ملک میں سیاسی طور پر غیر یقینی کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب ہندوستان میں بھی داخلی سیاسی صورتحال پاکستان کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ حکمراں طبقہ کی پالیسیوں کا پورا دارو مدار فرقہ واریت پر ہوتا ہے اور ان کی انتخابی حکمت عملی پاکستان کی مخالفت پر مبنی رہتی ہے۔ اور فی الحال کرناٹک جیسی اہم ریاست میں اسمبلی الیکشن ہو رہے ہیں۔ اگلے چند مہینوں میں شمالی ہند کی کئی اور اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگلے ہی سال یعنی 2024 کو عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں جو اقتدار کی حصولیابی کے ساتھ ساتھ نظریاتی طور پر بھی کافی اہم ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر گھومنا حکمراں طبقہ کے لیے اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے جیسا نہیں ہوگا؟ ان کے لیے اپنے ووٹ بینک کو واضح پیغام دینے کا تو یہی صحیح وقت ہے! اس وقت ہندوستان میں الیکشن کی فضا ہے۔ حکمراں جماعت یہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ پاکستان کے خلاف ملک میں جو سخت بیانیہ بنایا گیا ہے اس میں کسی بھی طرح کی نرمی کا اشارہ ملے۔
اس لیے بلاول بھٹو زرداری اور ایس جے شنکر نے ایس سی او اجلاس کے دوران جس طرح ’اپنے دامن بچا کر‘ اس بین الاقوامی اجلاس میں اپنی رسمی ذمہ داریاں پوری کیں، وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق بالکل درست تھا۔ ان سے اس سے زیادہ کی توقع کرنا مناسب بھی نہیں۔ ویسے بھی ملکی سطح پر تعلقات میں جمہود کو توڑنے کی رسم عموماً سربراہان حکومت یا مملکت ادا کرتے ہیں۔ خاص طور پر ہند-پاک کے درمیان تعلقات میں برف جمی ہو تو چھوٹے موٹے سرکاری عہدیداروں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ سربراہان حکومت سیاسی اور سفارتی جمود کو توڑنے اور تعلقات کی استواری کے لیے کبھی کبھی تو پروٹوکول اور ایجنڈے کو بالائے طاق رکھ کر غیر معمول اقدام کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ سابق پاکستانی فوجی صدر جنرل مشرف نے کیا تھا۔ جنوری 2002 میں سارک کانفرنس کے گیارہویں اجلاس میں سیاہ شیروانی پہنے جنرل مشرف نے اپنی تقریر کے آخری حصے میں وہ بات کہہ دی جس سے ان کے پروٹوکول اور دفترخارجہ کے افسران بھی لاعلم تھے۔ وہ وہیں بیٹھے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی کی جانب مڑے اور کہاکہ ’اب جبکہ میں (تقریر ختم کر کے) پوڈیم سے اتر رہا ہوں، میں وزیراعظم باجپئی کی طرف مخلص دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ ہمیں مل کر جنوبی ایشیا میں امن، ہم آہنگی اور ترقی کے سفر کو آگے بڑھانا ہو گا۔‘ جنرل مشرف خاموش بیٹھے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی کی نشست کی جانب گئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ اس دوران ہر طرف تالیوں کی گونج تھی۔ اسی طرح 2014 میں کاٹھ منڈو میں ہی سارک کانفرنس کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان مصافحہ خبروں کی زینت بنا رہا۔ دونوں لیڈروں نے ہاتھ ملائے، مسکرائے، جملوں کا تبادلہ کیا اور تصویر کھنچوائی۔ اس سے قبل دونوں وزرائے اعظم ایک دوسرے سے دور دور دکھائی دیے تھے۔ 2002 میں کاٹھ منڈو میں پرویز مشرف اور باجپئی کے درمیان ہونے والا مصافحہ ہو یا 2018 میں اسی شہر میں نریندر مودی اور نواز شریف کے درمیان ہاتھ ملاتے ہوئے مسکراہٹ کا تبادلہ، ان دونوں واقعات کو ’آئس بریکنگ‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ہاں، 2011 میں اس وقت کی پاکستانی وزیرخارجہ حنا ربانی کے دورئہ ہند کی بات کچھ الگ تھی۔ اس وقت حالات کچھ مختلف تھے۔ تعلقات کے حوالے سے دونوں ملکوں میں داخلی سیاسی ماحول نسبتاً زیادہ سازگار تھے۔ حنا ربانی کھر نے 12 سال قبل اپنے ہندوستانی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے دہلی میں ملاقات کی تھی تو حالات کافی مختلف تھے۔ ہندوستان اور پاکستان تعلقات میں بہتری اور تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
جے شنکر اور بلاول کی باڈی لینگویج بھی کافی موضوع بحث رہی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے ہاتھ ملائے بغیر صرف ’نمستے‘ پر ہی اکتفا کیا۔ باڈی لینگویج یا سفارتی ملاقاتوں میں ’نان وربل‘ انداز میں پیغام رسانی کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن حقیقت تویہ ہے کہ جو پیغام الفاظ کی شکل میں دیا جاتا ہے، وہی اہم ہوتا ہے اور ملکوں کے درمیان تعلقات کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ اس لیے بلاول بھٹو زرداری اور جے شنکر کی تقاریر کا متن ان کی باڈی لینگویج سے زیادہ اہم ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS