سوڈان میں دو جنرلوں کے درمیان جنگ میں پستے عوام

0

ایم اے کنول جعفری
گزشتہ 26دنوں سے افریقی ملک سوڈان میں جاری خانہ جنگی میں جہاں550 سے زیادہ لوگ ہلاک اور تقریباً 5000 افراد زخمی ہوچکے ہیں، وہیں ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو معمولی خوراک اور پانی کے ہمراہ اپنے گھر چھوڑ کر پڑوسی ممالک کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو نا پڑاہے۔ فوج اور سریع الحرکت فورس(ریپڈ سپورٹ فورس) کے جنرلوں کے درمیان چھڑی برتری کی جنگ میں عوام پس رہے ہیں۔ مصرمیں10ہزار، چاڈمیں20ہزار اور ایتھوپیا میں05ہزار سے زیادہ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے غیر ملکی افراد کا انخلا جاری ہے۔ لوگ بحری و فضائیہ کے ذریعہ جدہ پہنچ رہے ہیں۔ خانہ جنگی نے قحط زدہ اور سیاسی عدم استحکام کے شکار سوڈان کو ایک اور بحران سے دوچار کر دیا ہے ۔ اس کا خمیازہ ان لوگوں کو اُٹھانا پڑ رہا ہے ، جن کا اس لڑائی سے کوئی مطلب واسطہ نہیں ہے۔ ملک کے حالات میں بہتری کی اُمید چھوڑ چکے 08 لاکھ افراد وطن چھوڑنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ انسانی بحران اور غیر مستحکم خطے میں خانہ جنگی کی دہشت کی بنا پر دیگر ممالک اپنے شہریوںکو ملک سے باہر نکالنے میں سرگرم عمل ہیں۔ اقوام متحدہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل برائے انسانی امور جوائس مسویا کے مطابق ملک کی ایک تہائی آبادی(1.58کروڑ) کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔40لاکھ بچے، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں۔قریب37لاکھ لوگ داخلی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ تنازعہ جاری رہنے سے دقتوں میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔
دونوں جنرلوں کے درمیان 04سے 11مئی تک کی جنگ بندی کو اصولی طور پر اچھا اشارہ تسلیم کیا جا رہا ہے، لیکن نئی جنگ بندی کے اعلان کے باوجود خرطوم سمیت کئی دیگر مقامات پر دھماکے اور فائرنگ کی وارداتیں سامنے آرہی ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں نے موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں فریق سے اس مسئلے اور تنازع کو فوری طور پر حل کرنے کی گزارش کی ہے ۔ جنوبی سوڈان کی وزارت خارجہ کے اعلان کے مطابق فوج کے کمانڈر جنرل عبد الفتح البرہان اور کمانڈر آر ایس ایف حمدان دگالو المعروف حمیدتی نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ جنوبی سوڈان کے صدر سلواکیر مایاردت کی درخواست پر مصر، یوگانڈا، کینیا، کناڈا اور برطانیہ سمیت بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ متعدد رابطوں کے بعد ہوئی جنگ بندی پر فریقین سے جلد از جلد امن مذاکرات شروع کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔ برہان اور دگالو سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اُن سے امن مذاکرات کا مقام طے کرنے کو بھی کہا ۔
شمال مشرق افریقہ میں واقع سوڈان یکم جنوری 1956کو برطانیہ اور مصر سے آزاد ہونے کے بعد مزید17برس تک خانہ جنگی کے کرب سے دوچار رہا۔1972میں ایتھوپیا میںہوئے امن معاہدے پر دستخط ہونے کے ساتھ سوڈان کو خود مختاری نصیب ہوئی۔ خود مختاری کا دور بہت زیادہ دنوں تک نہیں چلا اور11برس بعد1983میں پھر خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔1989میں تختہ پلٹنے کی کارروائی کے بعد اسلام پسند عمر البشیر ملک کے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ 9جنوری 2005 کو امن معاہدے پر دستخط کے بعد خانہ جنگی کا اختتام ہوا۔دوسری طرف بین الاقوامی عدالت نے عمر البشیر کو جنگ، انسانیت کے خلاف جرائم اور قتل و غارت گری کا قصوروار مانتے ہوئے گرفتاری وارنٹ جاری کیا۔ 2019 میں عمر البشیرکی بے دخلی کے ساتھ اس کے 30سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ 31اگست 2020کو سرکار اور زیادہ تر باغی تنظیموں نے تاریخی امن معاہد ہ کیا،لیکن اس کے باوجود چھٹ پٹ جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 25 اکتوبر2021میں سوڈان کی فوج نے نیم فوجی دستے سریع الحرکت فورس کی حمایت سے جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ بغاوت کے بعد سے خود مختار کونسل کے ذریعہ ملک کا نظام چل رہا تھا۔اس دوران برتری کی جنگ میں فوج اورسریع الحرکت فورس( آر ایس ایف) کے درمیان اختلاف کے ساتھ کشیدگی پیدا ہو گئی۔عمر البشیر حکومت کی معزولی کی چوتھی برسی سے قبل اکتوبر کے اوائل میں دونوں فریق کے درمیان ایک حتمی معاہدے پر دستخط کئے جانے تھے۔ معاہدے کے مطابق فوج اور نیم فوجی اتحاد کو عوامی جمہوریت میں منتقلی کے بین الاقوامی حمایت یافتہ منصوبے کے تحت ملک کی باگ ڈور سونپنی تھی،لیکن آر ایس ایف اور فوج کے درمیان بھڑک اُٹھی لڑائی نے سوڈان میں جمہوریت کی طرف پیش قدمی کی اُمیدوں کو ختم کردیا۔ ایک دوسرے پر برتری سمیت دیگر مدعوں پر فیصلہ نہیں ہونے سے پہلے دونوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اس کے بعد فائرنگ اور پھر بمباری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دارالحکومت خرطوم سمیت کئی دیگر شہروں میں جھڑپوں اور دھماکوں کی وجہ سے زبردست تباہی مچی ہوئی ہے۔ گولہ باری اور تباہی کے لیے دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔فوج کا کہنا ہے کہ آر ایس ایف اس کے خلاف ناجائز طریقے سے لام بند ہو ئی،جبکہ آر ایس ایف نے فوج پر ایک سازش کے تحت البشیر کے وفاداروں کے ساتھ پوری طاقت حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا۔کمانڈرجنرل عبدالفتح البرہان 2019سے فوج کے قائد اور سوڈان کی برسراقتداراراکین مجلس کے رہنما ہیں،جبکہ آر ایس ایف لیڈر جنرل محمد حمدان دگالو کونسل میں ان کے نائب ہیں۔ سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کاخیال ہے دگالو خود کو سیاست داں کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے تھے۔ یہ لڑائی فوج کے کمانڈر جنرل عبدالفتح البرہان اور آر ایس ایف کے سربراہ جنرل محمد حمدان دگالو کے درمیان آر ایس ایف کے فوج میں انضمام پر کئی مہینوں تک جاری رہنے والی کشیدگی کے بعد شروع ہوئی۔
15اپریل2023 کوسوڈان کے دارالخلافہ خرطوم کے وسط میں واقع آرمی ہیڈ کوارٹر کے قریب فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ آر ایس ایف نے فوج پر خرطوم کے جنوب میں واقع اپنے کیمپ پر حملے کا الزام لگایا،تو فوج نے آر ایس ایف کے جنگجوؤں کے اُوپر اپنے ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا۔فوج اور نیم فوجی فورس کے مابین دشمنی عمر البشیر کی معزولی کے بعد سے ہی چلی آرہی ہے ۔ فوج کا خیال ہے کہ آر ایس ایف ایک نیم فوجی دستہ ہے،اسے فوج میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے، جبکہ آر ایس ایف فوج میں شامل ہونے کا خواہاں ہے۔اُمید کی جا رہی تھی کہ سوڈان کے سیاسی نظام کو جمہوری نظام میں تبدیل کرنے کے لیے جلدی ہی معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے،لیکن فوج اور نیم فوجی فورس کے درمیان تنازع کی بنا پریہ ممکن نہیں ہو سکا۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک عبوری سیاسی انتظامیہ کو معزول کرکے ملک کے اقتدار پر قابض ہونے والی فوج کے اسلام پسند حکمراں عبد الفتح البرہان کی سیاسی جمہوری نظام کے قیام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ فوج کے پاس فضائی طاقت ہونے سے اس کے تیور سخت اور جارحانہ ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ آر ایس ایف خود سپردگی کر دے۔ دوسری جانب سونے کی کانوں سے سونا اور دوسرے ذرائع سے اپنے پاس وافر مقدار میں خزانہ جمع کرنے کے بعد خود مختار، مسلح اورکا فی مضبوط ہوئی آر ایس ایف ملک کی قیادت میں مذہبی نظریے کو ناپسند کرتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے اقتدار پر قابض فوج اور نیم فوجی اتحاد ختم ہونے سے جمہوریت کے قیام کے لیے سول انتظامیہ اور جمہوریت پسند اداروں کے درمیان اتفاق رائے سے بنا آئین نافذ ہو پائے گا یا نہیں،یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS