چھوٹے دکان داروں کی بڑی تشویش

اتنے بڑے اور مسلسل بڑھتے ہوئے بازار پر قبضہ کے لیے دنیا اور ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں میں مقابلہ ہونا فطری

0

آلوک جوشی

آن لائن ریٹیل یا ای-کامرس کاروبار میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ امیزون اور فلپ کارٹ سے لے کر جیومارٹ اور بگ باسکٹ تک، سبھی پریشان لگ رہے ہیں۔ ان سب کے درمیان کھلبلی کی وجہ ہے، منسٹری آف کنزیومر افیئرس کی طرف سے جاری ای-کامرس گائیڈلائنس کا نیا ڈرافٹ۔ اس میں ان کمپنیوں پر کئی طرح کی پابندیاں صاف نظر آرہی ہیں۔ حکومت کی نظر سے دیکھیں تو یہ صارفین کے حقوق میں اضافہ والے ضوابط ہیں، جب کہ کمپنیوں کی نظر سے نئے ضابطے ان کے لیے کام کرنا ہی مشکل کردیں گے۔
حالاں کہ کمپنیاں اس معاملہ پر کھل کر کوئی بیان دینے سے کترا رہی ہیں، لیکن وہ حکومت کے ساتھ بات چیت میں مسلسل دباؤ بنارہی ہیں۔ حکومت نے سبھی فریقین کو اس ڈرافٹ پر اپنی رائے دینے کے لیے 6جولائی تک کا وقت دیا تھا، لیکن اب اسے دو ہفتے بڑھا کر 21جولائی کردیا گیا ہے۔ امیزون، فلپ کارٹ، ٹاٹا گروپ، پے ٹی ایم اور اسنیپ ڈیل جیسی کئی بڑی کمپنیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ مشورے دینے کے لیے انہیں ایک ماہ کا یا کم سے کم 20دن کا وقت مزید دیا جائے۔ ایسا ہی مطالبہ متعدد صنعتی تنظیموں کی طرف سے بھی ہوا تھا۔
امیزون اوور فلپ کارٹ کے سامنے ایک دوسرا محاذ بھی کھلا ہوا ہے۔ ہندوستانی مسابقتی کمیشن(Competition Commission of India) نے گزشتہ سال ان دونوں کمپنیوں کے خلاف جانچ شروع کی کہ کیا یہ اپنے پلیٹ فارم پر کچھ منتخب شدہ تاجروں کو ترجیح دیتی ہیں، ان کے ساتھ مل کر گلا کاٹ قیمتوں کے مقابلہ کو بڑھاوا دیتی ہیں اور کیا یہ فون کمپنیوں کے ساتھ سازباز کرکے بھاری چھوٹ والی سیل لگاتی ہیں؟ دونوں کمپنیوں نے اس جانچ کو عدالت میں چیلنج دیا ہے۔ حالاں کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے ان کی عرضی نامنظور کردی، لیکن انہوں نے اس حکم کے خلاف بھی اپیل کی ہے۔ دوسری طرف، پورے ملک میں تقریباً 7کروڑ چھوٹے تاجروں کی تقریباً 40,000تنظیموں کا فیڈریشن سی اے آئی ٹی اس معاملہ میں جانچ کے حق میں دباؤ بنانے میں مصروف ہے۔ مسابقتی کمیشن کی یہ جانچ دہلی ٹریڈ فیڈریشن کی شکایت پر شروع ہوئی تھی۔ اس تنظیم میں دہلی کے ہزاروں چھوٹے مجھولے کاروباری شامل ہیں۔ ان کی شکایت تھی کہ ان کمپنیوں کے منمانے طریقوں سے چھوٹے تاجروں کو زبردست نقصان ہورہا ہے۔
اب جب کہ کنزیومر لاء میں تبدیلی پر بحث گرم ہے، تب یہ معاملہ بھی ساتھ ساتھ چرچہ میں ہے۔ قانون میں جو تبدیلی ہونی ہے، ان پر بھی ماہرین میں کافی اختلاف ہے۔ ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو نئی گائیڈلائنس میں سوراخ تلاش کرکرکے سامنے لارہے ہیں کہ کیسے نئی گائیڈلائنس بڑی کمپنیوں کے لیے کاروبار مشکل کردیں گی اور اس کا خمیازہ آخرکار خریدار کو ادا کرنا پڑے گا۔ لاک ڈاؤن کے دور میں آن لائن ریٹیلرس اور فوڈ ڈلیوری کمپنیوں نے جو کام کیا، اسے دیکھ کر یہ جواز قوی بھی لگتا ہے۔ مختلف آن لائن کمپنیوں کے درمیان ہوئے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں ان کے پاس 50-65فیصد تک ایسے نئے صارفین آئے، جنہوں نے پہلی مرتبہ کوئی آن لائن خریداری کی ہے۔ ایسے ماحول میں بڑی کمپنیوں کی شکایت ہے کہ حکومت ان کے کام کاج میں بڑی دخل اندازی کی تیاری کررہی ہے۔

ابھی کمپنیاں بھی ضوابط کو پڑھنے میں مصروف ہیں اور ماہرین بھی۔ ان میں ردوبدل کی گنجائش بھی باقی ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اس کاروبار میں بہت بڑی بڑی کمپنیوں کی دلچسپی ہے۔ اور جس طرح ملک کے سب سے بڑے ریٹیلروں میں سے ایک فیوچر گروپ کو کاروبار فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑا، اسے دیکھتے ہوئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صارفین اور چھوٹے دکان داروں کے تحفظ کے لیے پوری احتیاط سے فیصلہ کرے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ حکومت نے ان ویب سائٹوں کی فلیش سیل پر لگام کسنے کی بات کہی ہے۔ پلیٹ فارم چلانے والی کمپنیاں خود سامان نہ فروخت کریں اور دوسرے تاجروں سے تفریق نہ کریں، یہ یقینی بنانے کے لیے کہا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے ڈلیوری پارٹنر بھی فروخت کرنے والوں کے درمیان میں تفریق نہ کریں، یہ کہا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ جو اور بڑا پیچ ہے، وہ یہ کہ ان ضوابط میں صارفین اور تاجروں کی شکایتوں کے نمٹارے کا انتظام مضبوط کرنے کی ہدایت بھی شامل ہے۔ اس کے لیے انہیں شکایت سننے والے افسر مقرر کرنے ہوں گے اور اگر سامان فروخت کرنے والا لاپروائی کرتا ہے تو اس کی غلطی کا خمیازہ بھی ادا کرنا پڑسکتا ہے۔
ملک میں آن لائن خریداری کا کاروبار ہر سال 25فیصد یا اس سے زیادہ رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ 2026تک یہ بازار تقریباً20,000کروڑ ڈالر یا تقریباً 15لاکھ کروڑ روپے کا ہوچکا ہوگا۔ اتنے بڑے اور مسلسل بڑھتے ہوئے بازار پر قبضہ کے لیے دنیا و ملک کی بڑی بڑی کمپنیوں میں مقابلہ ہونا فطری ہے۔ شاید اسی لیے ضروری بھی ہے کہ حکومت صحیح وقت پر قانون میں وہ تبدیلی کرے کہ مستقبل میں پچھتانا نہ پڑے۔ قانون ایسے ہونے چاہیے کہ کسی کو بھی استحصال کا شکار نہ ہونا پڑے۔
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ ای-کامرس پر حکومت کے نئے ضوابط میں ایک بہت اچھی بات یہ ہے کہ اس میں ملکی-غیرملکی کمپنیوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے۔ یعنی کس کمپنی میں کتنا غیرملکی پیسہ لگا ہے، اس بنیاد پر اس کے کام کرنے کے طریقے بیان(defined) نہیں کیے گئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان ضوابط سے امیزون، وال مارٹ کے کنٹرول والی فلپ کارٹ، سافٹ بینک کی حصہ داری والی اسنیپ ڈیل، علی بابا کی حصہ داری والی پے ٹی ایم کے ساتھ گروپ کی بگ باسکٹ اور ریلائنس کا جیومارٹ ایک ساتھ ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں کہ یہ ضوابط ایک طرح سے ہندوستان کی ایک جامع ای-کامرس پالیسی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، جب کہ غیرملکی سرمایہ کا فیصلہ حکومت الگ سے کرسکتی ہے اور اس پر الگ پالیسی بھی بن سکتی ہے۔
اس تنازع کے دوران حکومت کی طرف سے یہ صفائی بھی آئی ہے کہ وہ کمپنیوں کے کام کاج پر بے وجہ لگام کسنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ اس نے یہ بھی صاف کیا ہے کہ صرف ایسی فلیش سیل پر پابندی لگانے کا اس کا ارادہ ہے، جس میں کسی خاص کمپنی کی ہی پیداوار بہت زیادہ چھوٹ پر فروخت کرکے بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا ارادہ نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے جو اطلاع جاری کی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کے خلاف بڑی تعداد میں دھوکہ دہی اور گڑبڑیوں کی شکایتیں ملنے کے بعد نئے ضوابط لائے گئے ہیں۔ حالاں کہ حکومت نے نہیں بتایا کہ کس کمپنی کے خلاف شکایتیں ملی ہیں۔
ابھی کمپنیاں بھی ضوابط کو پڑھنے میں مصروف ہیں اور ماہرین بھی۔ ان میں ردوبدل کی گنجائش بھی باقی ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اس کاروبار میں بہت بڑی بڑی کمپنیوں کی دلچسپی ہے۔ اور جس طرح ملک کے سب سے بڑے ریٹیلروں میں سے ایک فیوچر گروپ کو کاروبار فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑا، اسے دیکھتے ہوئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صارفین اور چھوٹے دکان داروں کے تحفظ کے لیے پوری احتیاط سے فیصلہ کرے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS