بندھن ایکسپریس: سروس دوبارہ شروع!

0

ٹرینیں دو جگہوں کو ہی نہیں جوڑتیں،دلوں کو بھی جوڑتی ہیں، یہ ان لوگوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے جو قریبی رشہ داروں سے دور رہتے ہیں۔ یہ دوری اگر سرحد پار کی ہو تو اور بڑھ جاتی ہے اور اس وقت ٹرین کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے، چنانچہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان دو سال بعد بندھن ایکسپریس کا شروع ہونا، ایک ٹرین کا شروع ہونا ہی نہیں ہے، یہ رابطے کی ایک نئی شروعات بھی ہے۔ بندھن ایکسپریس آج بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا سے بنگلہ دیش کے کھلنا کے لیے روانہ ہوئی تو یہ ان لوگوں کے لیے اچھی خبر تھی جو یہ مانتے ہیں کہ بھارت کے پڑوسی ملکوں میں بنگلہ دیش ایک اہم ملک ہے۔ بنگلہ دیشیوں کی اکثریت بھی یہ بات سمجھتی ہے کہ بھارت، بنگلہ دیش کے لیے اہمیت کا حامل ہے، بنگلہ دیش کی تاریخ ہی بھارت کے احسان سے شروع ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کا جھکاؤ اگر چین کی طرف زیادہ ہوگا تو پھر وہ دوسرا پاکستان بن جائے گا، اس لیے چین سے بہتر تعلقات رکھنے کے باوجود بنگلہ دیش نے بھارت کو کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ گزرتے وقت کے ساتھ اس سے رشتوں کی شدت کچھ کم ہوئی ہے جبکہ اس درمیان دونوں ملکوں میں ایسی سیاست ہوئی ہے جس کا اثر دونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑنے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ گزشتہ برس فرقہ وارانہ تشدد کے وقت یہ خدشہ پیدا ہوا تھا کہ کہیں تشدد کا دائرہ پھیل نہ جائے اور اس کا اثر دونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس سے قبل ’بنگلہ دیشی گھس پیٹھئے‘ اور ’بنگلہ دیشی شرنارتھی‘ جیسے الفاظ کے استعمال اور سی اے اے کے بعد بنگلہ دیشی لیڈروں کی طرف سے جو بیانات آئے تھے، ان سے اس اندیشے نے سنگین صورت اختیار کر لی تھی کہ کہیں بنگلہ دیش سے تعلقات پہلے جیسے نہ رہیں مگر حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قول و عمل سے یہ اشارہ دینے میں حکومت ہند کامیاب رہی کہ دونوں ملکوں کا رشتہ بہت مستحکم ہے۔ حالات خدشات پیدا کر سکتے ہیں، رشتوں کو خراب نہیں کرسکتے۔ ادھربنگلہ دیش کی حسینہ حکومت نے بھی کچھ ایسے ہی اشارے دیے۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کو رشتوں کے حوالے سے اطمینان نہیں کر لینا چاہیے، کیونکہ چین کو یہ احساس ہے کہ اس خطے میں کوئی ملک اگر علاقے کے ملکوں کے لیے راحت افزا ہے تو وہ بھارت ہے۔ اس کا احساس سری لنکا کے بحران کے وقت بھی ہوا جب بھارت نے اس کی مدد کرنے میں تاخیر نہیں کی اور نیپال کے بدلے ہوئے حالات سے بھی ہو رہا ہے جہاں کے سربراہ شیر بہادر دیئوبا اپنے پیش رو کے پی شرما کے برعکس اپنے لوگوں کو بھارت کی اہمیت کا احساس دلا رہے ہیں ۔ اس صورتحال میں بھارت کے لوگوں کی پڑوسی ملکوں میں اور پڑوسی ملکوں کی بھارت میں آمد و رفت کی اہمیت سمجھی جا سکتی ہے۔ پڑوسی ملکوں کے لوگوں کو بھارت آنے سے یہ احساس ہوگا کہ دنیا کے نقشے پر بھارت کی ساکھ آج بھی کیوں برقرار ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے اپنی مدت کار میں ہندوستان کے علاقوں سے پاکستان کے لیے بسیں چلاکر بھی لوگوں کو جوڑنے اور اپنے ملک کی شفاف پالیسی کا ہی اظہار کیا تھا اور اس کی وجہ سے عام لوگوں کی سطح پر بھی تبدیلی نظر آئی تھی۔ جن پاکستانیوں کو یہ گوارہ نہ ہوا کہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم وہاں سے جیت کر جائے، اسی وجہ سے 1989-90 کی کرکٹ سیریز میں 20 دسمبر، 1989 کو پاک ٹیم کے صرف 28 پر 3 وکٹ گر جانے سے شائقین نے ہنگامہ کرکے میچ مسترد کروا دیا تھا، انہیں شائقین نے 2003-04 کی کرکٹ سیریز میں ہندوستانی کھلاڑیوں کے بہترین شاٹس پر تالیاں بجائی تھیں، حوصلہ بڑھایا تھا اور ہندوستانی ٹیم 2-1 سے ٹسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔
دو ممالک اگر رشتہ استوار کرنا یا بہتر رشتہ رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے مابین صرف اقتصادی تعلقات ہی مستحکم نہیں ہونا چاہیے، ثقافتی اور لسانی تعلقات بھی مستحکم ہونا چاہیے اور اس کے لیے دونوں ملکوں کے لوگوں کا میل جول ضروری ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے دو ملک کے لوگوں کے لیے تو ملنے جلنے کی اور بھی اہمیت ہے، کیونکہ بنگلہ دیش کی قومی زبان بنگلہ ہے اور یہ زبان بھارت کی بھی اہم زبانوں میں سے ایک ہے بلکہ ریاست مغربی بنگال کی سب سے اہم زبان یہی ہے۔ یہ زبان و ثقافت کا ہی جادو ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگ مغربی بنگال میں غیریت کا احساس نہیں کرتے، انہیں کولکاتا اپنے ڈھاکہ جیسا لگتا ہے تو مغربی بنگال کے لوگ بنگلہ دیش جانے پر یہ محسوس نہیں کرتے کہ وہ کسی نئے ملک میں آگئے ہیں، انہیں ڈھاکہ کی شام و صبح ویسی ہی لگتی ہیں جیسی کولکاتا کی شام و صبح لگتی ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ کولکاتا سے کھلنا تک بندھن ایکسپریس اور اس سے پہلے کولکاتا سے ڈھاکہ تک میتری ایکسپریس چلنے کا مثبت اثر بھارت-بنگلہ دیش تعلقات پر پڑے گا۔ دونوں ملکوں کے لوگ اور بھی زیادہ قریب آئیں گے۔ وزیراعظم مودی کے بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات پر اس قول کی صداقت کا احساس دلائیں گے کہ ’ ہم پاس پاس بھی ہیں،ہم ساتھ ساتھ بھی ہیں۔‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS