اودھیش کمار: کروز اور ٹینٹ سٹی پر ہائے توبہ مناسب نہیں

0

اودھیش کمار

ہندوستان نے دنیا کی سب سے طویل ریور کروز یاترا کی شروعات کی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے وارانسی سے ڈبرو گڑھ تک جانے والی گنگا ولاس کو ورچوئل ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی کاشی میں گنگا کے پار بنے ٹینٹ سٹی کا بھی افتتاح انہوں نے کیا۔ اس حوالے سے ملک میں دو تاثرات پھر نظر آرہے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ ایسے بیانات دے رہا ہے جیسے اب ندیاں بھی امیروں کے عیش و عشرت کے لیے وقف کردی گئی ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملاحوں کا کام خطرے میں پڑ جائے گا۔ اسے گنگا میں عیش و عشرت کو فروغ دینے والا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر آپ ان پر ردعمل دیکھیں تو ایسا لگے گا جیسے ایک غریب ملک کے وزیراعظم اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ نے غریبوں کا مذاق اڑانے کے لیے کروز اور ٹینٹ سٹی کی شروعات کی ہے۔کیا کروز اور ٹینٹ سٹی کو واقعی اسی طور پر دیکھا جائے؟ کیا یہ گنگا کو سیاحوں کے لطف اندوز ہونے کے لیے وقف کرنے والا قدم ہے؟ کیا واقعی اس سے ملاحوں کا کام رک جائے گا؟ کیا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے؟
برسوں سے ماہرین بتا رہے ہیں کہ یہ آبی گزرگاہوں کا ملک رہا ہے۔ سڑکوں اور ریل کے راستوں سے کم خرچ اور کم وقت میں پانی کے راستوں سے ہر قسم کے نقل و حمل کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی آبی گزرگاہوں کی قدیم تاریخ ہے۔ قدیم تاریخ میں آپ کو شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک بہت سی بندرگاہوں کے چرچے ملیں گے۔ ان کے ثبوت بھی ہیں۔ جس عظیم ہندوستان کے کے بارے میں ہم تاریخ میں پڑھتے تھے اس کے پیچھے سب سے بڑی طاقت آبی گزرگاہیں ہی تھیں، جن سے نہ صرف تاجر بلکہ ہمارے ملک کے سادھو سنت، دانشوراور راجاؤں کی فوجیں بھی گزرتی تھیں۔ ہندوستان جیسے ندیوں کے ملک میں پیدل نقل وحمل سے زیادہ آسان کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ سچ یہ ہے کہ انگریزوں نے ملک کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے ہندوستان کی آبی گزرگاہوں کو تباہ کر دیا اور اس کی جگہ ریل کی پٹریاں بچھائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ انگریزوں کے ذریعہ بچھائی گئیں زیادہ تر ریلوے لائنیں، اسٹیشن اور پولیس تھانے اور فوجی اڈے آپ کو ندیوں کے اردگرد نظر آئیں گے۔ جب آپ آبی نقل و حمل کا منصوبہ بناتے ہیں تو اس سے منسلک دیگر پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ سیاحت کے لیے بسیں اور ٹرینیں چلاتے ہیں توندیوں کا اس نقطہ نظر سے شاندار استعمال کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ زیارت گاہوں کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں مکمل سیاحتی مقام میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیا وارانسی میں گنگا کے پار بنی ٹینٹ سٹی اس معیار پر پوری نہیں اترتی؟
اصل بات ہوتی ہے ایپروچ کی۔کیا نریندر مودی کی حکومت یا اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ہندوستان میں ابھی تک کی حکومتوں سے زیارت گاہوں کو ترقی دینے کے معاملے میں آگے ہے یا پیچھے؟ اس ایک سوال کا جواب تلاش کرنے سے آپ کو تمام سوالات کا جواب مل جائے گا۔ جب وہ زیارت گاہوں کو خود ہی زیارت گاہوں کے طور پر ترقی دینے اور وہاں وہ تمام سہولیات فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں جو عام طور پرپہلے سیاحتی مراکز قرار دیے جانے کے بعددستیاب ہوتی تھیں تو وہ وارانسی اور دیگر مقامات کی زیارت گاہوں کے وقار کو کم کرنے کی کوشش کریں گے ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ طویل عرصہ سے آبی نقل و حمل کی بات ہوتی تھی، لیکن اس کے پیش نظر کسی بھی حکومت نے کوئی جامع منصوبہ بناکر اسے زمین پر اتارنے کی مہم جوئی نہیں کی جیسا کہ مودی حکومت نے کیا ہے۔ 2014 میں5قومی آبی گزرگاہیں تھیں۔ آج24ریاستوں میں111قومی آبی گزرگاہیں تیار کی جا رہی ہیں۔ آبی گزرگاہ سے ایک تہائی لاگت کم ہوجاتی ہے۔ وزیراعظم نے کروز اور ٹینٹ سٹی کے افتتاح کے ساتھ بہار میں پٹنہ کے دیگھا، نکٹادیارا، باڑھ، پاناپور اور سمستی پور کے حسن پور میں پانچ کمیونٹی گھاٹوں کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ یہی نہیں بنگال میں ہلدیہ ملٹی ماڈل ٹرمینل اور آسام کے گوہاٹی میں شمال مشرق کے لیے میری ٹائم اسکل ڈیولپمنٹ سینٹر کا بھی افتتاح کیا۔ انہوں نے کولکاتہ کے لیے کارگو شپ آر این ٹیگور کو بھی ہری جھنڈی دکھاکر روانہ کیا۔ ان کی چرچہ نہیں ہو رہی ہے۔
اگر ہم ان سب کو ملا کر غور کریں گے تو یہ ہندوستان کے اپنے آبی وسائل کے صحیح استعمال اور سڑکوں اور ریلوں سے بڑھتے ٹرانسپورٹیشن کا بوجھ کم کرنے کے ساتھ گنگا پٹی کی ترقی کے لحاظ سے نئے دور کا آغاز نظر آئے گا۔ سچ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ایک وقت ہندوستان کی تہذیب کا مرکز، وادی گنگا کے علاقے ترقی میں پیچھے رہ گئے۔ اتراکھنڈ، اتر پردیش، بہار اور بنگال کی حالت کیسی رہی ہے؟ کیا سینہ کوبی کرنے والے اس حقیقت کو نہیں جانتے؟ اس علاقہ کو فروغ دینا ہے تو گنگا کا اس میں بڑا کردار ہوگا اور یہ قدم اس نقطہ نظر سے تاریخی کہا جانا چاہیے۔ حکومت نے نمامی گنگے اور ارتھ گنگا مہم چلائی۔ اگر وزیر اعظم کی مانیں تو گنگا ولاس دونوں مہمات کو نئی طاقت دے گا۔
62.5میٹر طویل اور13میٹر عریض کے اس کروزسے فی الحال51دنوں میں 3200کلومیٹر کا سفرہوگا۔ یکم مارچ کو یہ ڈبرو گڑھ پہنچے گا۔ یہ مکمل طور پر ہندوستان کا بنا ہوا کروز ہے جس میں ٹیکنالوجی تک سودیشی استعمال ہوئی ہے۔ یہ 1.4میٹر گہرے پانی میں چلے گا، جس میں فی گھنٹہ50لیٹر ڈیزل خرچ ہو گا۔ یہ27ندیوں کے پانی کے نظام سے گزرے گا۔ ایک وقت میں اس میں زیادہ سے زیادہ39 مسافر سفر کرسکتے ہیں۔ یہ چار ریاستوں اترپردیش، بہار، بنگال اور آسام سے گزرے گا، یہ 15دن بنگلہ دیش میں بھی سفر کرے گا۔ یہ وارانسی، غازی پور ہوتے ہوئے بکسر سے پٹنہ، مونگیر اور بھاگلپور، بنگلہ دیش ہوتے ہوئے ڈبرو گڑھ تک پہنچے گا۔ اس میں آر او اور ایس ٹی پی پلانٹ لگا ہے تاکہ آلودہ پانی گنگا میں نہ جائے۔ پلاسٹک کا استعمال نہ ہونے سے ندی کا ماحولیاتی نظام متاثر نہیں ہوگا۔
یقینا کوئی عام آدمی لاکھوں روپے کا کرایہ دے کر اس میں سفر نہیں کرسکتا لیکن دنیا کے بڑے ممالک ہی ابھی تک اس طرح کے کروز سے سیاحوں کو سیاحت کراتے رہے ہیں۔ ہم ہندوستان میں سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں تو اپنی ثقافت، تہذیب سے لے کر ماحول وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی مہمات کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ اس گروپ میں سوئٹزرلینڈ کے32سیاح سفر کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں وہ سب ہے آپ جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ یعنی اس کے ذریعے ہندوستان کو دکھانا چاہتے ہیں، جس کی تصاویر دیکھنے کے بعد دنیا بھر سے سیاح یہاں آئیں گے۔ دوسری بات، کشتی سے اتنی لمبی مسافت طے نہیں کر سکتے ہیں۔ کروز وارانسی کے اس گھاٹ سے اس گھاٹ نہیں لے جاتے اور نہ ہی مسافروں کو اسنان سے لے کر عام سیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملاح کا کام اپنی جگہ اور کروز کی افادیت اپنی جگہ۔ تیسرا، نریندر مودی حکومت نے وارانسی کے لیے جو سہولتیں فراہم کرائی ہیں،اس کی بھی معلومات ملک کو ہونی چاہیے۔آپ وہاں کے شہریوں سے جاکر بات کریں، وہ نریندر مودی کو بعض معاملات میں اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ سی این جی سے چلنے والی کشتیاں آپ کو مل جائیں گی جو کشتی والوں کو زیادہ تر مفت اور بعد میں بہت چھوٹی قسطوں پر دی جاتی ہیں۔ اس کی بہتر شکل سامنے آنے والی ہے۔
جہاں تک وارانسی کے روحانی، ثقافتی، تہذیبی کردار اور اقدار کا تعلق ہے، تو اس پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان سب سے اس پر کوئی منفی اثر پڑے گا۔ اگر ٹینٹ سٹی غلط ہے تو کسی بھی زیارت گاہ میں جدید سہولیات سے آراستہ ہوٹل اور ٹورسٹ پیلیس بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ30ہیکٹیئر میں بنے ٹینٹ سٹی کا کرایہ بھی ایک عام آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن ملک اور دنیا کے متمول لوگ کہتے رہے ہیں کہ وارانسی میں ان کے قیام سے لے کر روحانی مشق اور دیگر پروگراموں کے لیے پرکشش مقامات کی کمی ہے۔ اس کے ذریعہ اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاںفلوٹنگ باتھی جیٹی بنائی گئی ہے۔ٹینٹ سٹی میں رامائن کی مثالی روایت کے ساتھ ایودھیا کی تھیم پر ایک سیلفی پوائنٹ بھی ہے۔ اس طرح روحانیت اور ثقافت کی جہت بھی اس میں ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گنگا ولاس اور ٹینٹ سٹی تمام نقطہ نظر سے پرکشش، اچھی اور سودمند پہل ہے۔ حاصل ہونے والے تجربے سے ان کا مستقبل طے ہوگا۔ گنگا کی آمدورفت سیاحت اور دیگر استعمال کے نقطہ نظر سے ایک امید افزا آغاز ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS