’مخصوص طبقہ کی آبادی‘ پر قابوپانے کی کوشش

0

اقتدار کی ہما جس کے سر پر براجمان ہوجائے وہ دنیا سے بالاتر خود کوفوق البشراور’ اوتار‘ محسوس کرنے لگتا ہے اپنی ذات کو ملک و قوم کیلئے ناگزیراور اپنے حاشیہ خیال میں آنے والی ہر سوچ کو انقلاب نو کا عنوان سمجھ بیٹھتا ہے ۔ اس پر یہ اچانک انکشاف بھی ہوتا ہے کہ قدرت نے اسے وقت کا دھارا موڑ دینے کی صلاحیت سے بھی مالا مال کررکھا ہے۔ اپنی ہر کچی پکی سوچ کو عمل کے سانچہ میں ڈھلتا ہوا دیکھنا اس کی آرزوئوں کی معراج بن جاتی ہے۔ ملک گزشتہ 8‘ 10 برسوں سے ایسے ہی کئی صاحبان اقتدارکی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اور عوام اپنے ناکردہ گناہوں کی سزاپارہے ہیں ۔ ایسے ہی ایک صاحب اقتدار اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں جنہیں بڑھتی ہوئی آبادی پر سخت تشویش ہے اوراس کا ذمہ دار ایک ’ مخصوص طبقہ ‘ کو گردانتے ہوئے اس مخصوص طبقہ کی آبادی پر قابو پانے کیلئے انہوں نے ایک پالیسی کا اعلان کیا ہے۔
عالمی یوم آبادی کے موقع پر حکومت اتر پردیش نے 11 سے 24 جولائی تک ’آبادی استحکام پکھواڑا ‘ منارہی ہے ۔اس مناسبت سے یوگی آدتیہ ناتھ نے آبادی کو قابو میں کرنے کیلئے ایک پالیسی کااعلان کیا ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اشاروں کنایوں میں بڑھتی آبادی کا الزام ’ ایک مخصوص طبقہ‘ پر ڈال دیا اور کہا کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو کامیاب ہونا چاہئے لیکن اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں آبادی میں عدم توازن کی صورتحال نہ پیدا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی ایک طبقے کی آبادی میں اضافے کی شرح زیادہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ آبادی کو قابو میں کرنے کی کوششوں میں اس بات کاخیال رکھاجانا چاہئے کہ ملک کے ’ اصل باشندے‘ ہیں ان کی آبادی کو کنٹرول کرکے آبادی میں عدم توازن پیدا کرنے کی کوششیں نہ کی جائے ۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ’ مخصوص طبقہ‘ سے یوگی جی کس کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ یوگی جی کا نشانہ براہ راست مسلمان ہیں اور مسلمانوں کی وجہ سے ہی انہیں آبادی میں اضافہ ہوتاہوا نظرآرہاہے ۔یوگی جی مسلمانوں کو ملک کا اصل باشندہ بھی نہیں سمجھتے ہیں ورنہ وہ آبادی کو متوازن بنانے کیلئے اس کا ذکر نہیں کرتے۔
یوگی جی کامزید کہنا ہے کہ پچھلی پانچ دہائیوں سے ملک میں آبادی کے استحکام کے بارے میں عوامی بیداری کے پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں۔ متوازن آبادی ایک خاص پیمانے پر معاشرے کیلئے ایک کامیابی ہے‘ لیکن اصل کامیابی صحت اور تندرستی ہے۔ بیماری ہو‘ خرابی ہو یا مناسب وسائل کی کمی ہو‘ان سب کیلئے آبادی کا دھماکہ ایک چیلنج بن جاتا ہے۔اس پکھواڑہ کے انعقاد سے پہلے اترپردیش حکومت کے تمام افسران اور ملازمین کو اتر پردیش میں آبادی کے استحکام کی کوششوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
آبادی میں اضافہ پر تشویش کا اظہار نہ تو کوئی معیوب بات ہے اور نہ ہی اس سے کسی انکار کی گنجائش ہے کہ ہندستان میںآبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ لیکن آبادی میں اضافہ کا ’الزام‘ ایک ’ مخصوص طبقہ‘ پر عائد کرتے ہوئے ملک کے ’ اصل باشندے‘ کا شوشہ چھوڑنا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی سوچ کی کجی ہے ۔
حقیقت یہ کہ آزادی کے بعد سے ہندوئوں کے مقابلہ میں مسلمانوںکی آبادی اتنی نہیں بڑھی ہے جس کا ڈنکا بجایا جاتا ہے اور جس کا یہ صاحبان اقتدار خوف دلاتے ہیں۔ ہندوستان کی اس وقت مجموعی آبادی 1.412ارب یعنی 140کروڑ سے زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت 1947میں ہندستان میں ہندوئوں کی کل آبادی تقریباً 20کروڑ تھی جو اب بڑھ کر 100کروڑ سے زیادہ ہوگئی ہے یعنی 75برسوں میں ہندوئوں کی آبادی4گنا بڑھی ہے۔ 1951 سے 2020 تک ہندوؤں کی آبادی میں ہر سال اوسطاً 1.14 کروڑ کا اضافہ ہوا۔ملک کی کم و بیش تمام ریاستوں میں ہندواکثریت میں ہیں ۔ دوسری طرف مسلمانوں کی آبادی میں اوسطاً سالانہ اضافہ 25 لاکھ ہے۔اگرفرض کرلیاجائے کہ اضافہ کی یہی رفتاربرقرار رہتی ہے تو بھی آنے والی کئی صدیوں میں بھی ہندستان میں مسلمانوں کی آبادی ہندوئوں کی آبادی سے نہیں بڑھ سکتی ہے ۔کوئی سرکاری اعداد و شماربھی اس بات کی نشاندہی نہیں کرتے کہ مسلمانوں کی آبادی کبھی بھی ہندو آبادی سے زیادہ ہو جائے گی۔
ان حقائق کے باوجود وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ’مخصوص طبقہ‘ کو بڑھتی کا آبادی کا ’قصوروار ‘ سمجھ رہے ہیںاور اسے قابو میں کرنے کیلئے پالیسی کا اعلان کررہے ہیں تو یہ فطرت کے خلاف جنگ اور وقت کا دھاراموڑنے کی کوشش ہے جس کی کامیابی کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔ بڑھتی آبادی پرا نہیں اگر کوئی حقیقی تشویش ہے تو وہ اس کے مقابلہ وسائل میں اضافہ کی راہ نکالیں اور موجودہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا انتظام کریں ۔اپنی ریاست میں علم کو فروغ دیں اور خود بھی اس سے فیض اٹھ

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS