اسمبلی انتخابات: کہاں ہیں اصل ایشوز؟

0

صبیح احمد

آئندہماہ ملک کی 5 اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ان ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کئی اعتبار سے اہم ہیں۔ ان میں سے اترپردیش، پنجاب اور اتراکھنڈ پر خاص طور پر سب کی نگاہیں ٹکی ہیں کیونکہ شمالی ہند کی ان ریاستوں کے انتخابی نتائج آئندہ لوک سبھا الیکشن کے لیے ایک پیغام لے کر آنے والے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی پارٹی خواہ وہ برسراقتدار ہو یا اس کے اتحاد میں شامل ہویا حزب اختلاف کی اہم پارٹی اور ان کا اتحاد ان انتخابات میں کوئی کسر چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ سبھی پارٹیاں اپنی اپنی پالیسیوں اور ایجنڈے کے ساتھ میدان میں خم ٹھونکنے میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں جہاں حکمراں پارٹیوں کی مبینہ ناکامیوں کے سہارے ووٹروں کو نئے اور بڑے بڑے خواب دکھا رہی ہیں، وہیں حزب اقتدار کی پارٹیاں اور خصوصاً حکمراں اتحاد کی قیادت کرنے والی پارٹی بی جے پی بھی اپنی 5 سالہ دور حکومت کی نام نہاد کامیابیوں کو گنوا کر اپوزیشن کی مبینہ نا اہلی کو موضوع بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان سب کے درمیان ابھی تک کسی بھی پارٹی کی طرف سے مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عوام کے بنیادی مسائل کو بھرپور طریقے سے اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ہاں، صرف خانہ پری کی حد تک کبھی کبھی ان ایشوز کا ذکر کر دیا جاتا ہے۔
ابھی گزشتہ کچھ انتخابات سے بے وقوف بنانے کی حد تک ووٹروں سے ایسے ناقابل یقین وعدے اور دعوے کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ یہ رجحان 2014 کے بعد سے کافی بڑھا ہے۔ ہر الیکشن عوامی ایشوز کے بجائے انہی کھوکھلے وعدوں اور دعوئوں کے زور پر لڑے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کے لیے سیاسی پارٹیوں سے زیادہ خود ووٹروں کو ذمہ دار قرار دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ یہ ووٹرس ہی ہیں جو ان جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر ووٹ ڈال کر سیاسی پارٹیوں کی اس طرح کی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی عوام کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرکے بڑے بڑے وعدے کرکے اپنی ناکامیوں کو چھپانے میں بخوبی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں تقریباً تمام پارٹیوں کی جانب سے موبائل فون سے لے کر اسکوٹی تک دینے کے وعدے کیے جا رہے ہیں لیکن عوام کے اصل مسائل جیسا کہ مہنگائی، بے روزگاری، کھادوں کی عدم دستیابی اور کسانوں کے دیگر مختلف مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا۔
حالانکہ ان دنوں مہنگائی کو لے کر دنیا بھر میں لوگ پریشان ہیں لیکن ہندوستان میں عام لوگوں کے ذریعہ معاش اور آمدنی کے تناسب میں مہنگائی میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ کا رجحان ہے۔ گھریلو ضرورت کی کوئی بھی چیز قوت خرید کے دائرے میں نہیں ہے۔ ہر چیز کی قیمت میں آگ لگی ہوئی ہے اور یہ قیمتیں مستحکم بھی نہیں ہیں بلکہ مہنگائی کا انڈیکس روزانہ اوپر کی طرف بھاگتا نظر آرہا ہے۔ ہندوستان میں تھوک مہنگائی کی شرح(ڈبلیو پی آئی انڈیکس) 2011-12 سیریز کی اپنی زیادہ سے زیادہ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مرکزی وزارت صنعت و کامرس نے 14 دسمبر 2021 کو تھوک مہنگائی کی شرح سے منسلک تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق نومبر 2021 میں یہ شرح 14.23 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ تھوک اور خردہ دونوں قسم کی مہنگائی میں ہر مہینہ اضافہ ہو رہا ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس(سی پی آئی) پر مبنی خردہ مہنگائی نومبر میں 4.9 فیصد کی سطح پر پہنچ چکی تھی۔ حالانکہ یہ اعداد و شمار ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی) کے طے شدہ دائرے میں ہیں، اس لیے اصولی طور پر اسے بہت زیادہ کہنا بے معنی ہوگا، لیکن درحقیقت عام لوگوں کے لیے یہ اضافہ بے حد پریشان کن ہے۔ وہیں دوسری جانب ڈبلیو پی آئی پر مبنی تھوک مہنگائی کو دیکھا جائے تو یہ گزشتہ 12 سال کی اعلیٰ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ فی الحال ملک میں تھوک مہنگائی 14.23 فیصد کی سطح پر ہے۔ اس سے پہلے 1992 میں تھوک مہنگائی 13.8 فیصد کی سطح پر تھی۔
ملک میں اپریل 2021 سے شروع ہو کر مسلسل 8 مہینے سے تھوک قیمت انڈیکس افراط زر دہائی کے نمبر میں بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں مہنگائی کی شرح 12.54 فیصد تھی جو بڑھ کر نومبر میں 14.23 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی یعنی اس میں 1.69 فیصد کا اضافہ ہوا۔ وزارت صنعت و کامرس نے مہنگائی میں اضافہ کے لیے خاص طور پر گزشتہ سال کے اسی ماہ کے مقابلے معدنی تیلوں، دھاتوں، خام پٹرولیم اور قدرتی گیس، کیمیکل اور کیمیائی اشیا، خوردنی اشیا وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کو سبب بتایا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں ایندھن اور بجلی کی افراط زر بڑھ کر 39.81 فیصد ہو گئی جبکہ اکتوبر میں یہ 37.18 فیصد تھی۔ فوڈ انڈیکس گزشتہ ماہ کے 3.06 فیصد کے مقابلے دو گنا سے زائد بڑھ کر 6.70 فیصد ہو گیا۔ زیر جائزہ ماہ میں خام پٹرولیم کی افراط زر 91.74 فیصد رہی جبکہ اکتوبر میں یہ 80.57 فیصد تھی۔ خوردنی اشیا سے لے کر الیکٹرک آلات اور کپڑوں تک پر مہنگائی کی مار پڑی ہے۔ آنے والے وقت میں بھی اس مہنگائی سے لوگوں کو راحت ملتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے حالیہ سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک کے عوام کو مہنگائی میں مزید اضافہ کا خوف ستا رہا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر کے اواخر اور نومبر کے اوائل میں آر بی آئی کے ذریعہ کرائے گئے سروے کے مطابق لوگوں کا یہ خوف ایسے وقت میں ہے جبکہ پٹرول اور ڈیزل اور بین الاقوامی بازار میں خام تیل پر گھریلو ایکسائز ڈیوٹی میں تخفیف کی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود عام لوگوں کے اندر مہنگائی کے حوالے سے خوف میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
اس صورتحال کے لیے حالانکہ عالمی وبا کووڈ19- بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے۔ اس وبا کی وجہ سے زندگی کے تقریباً تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کی یہ صورتحال دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کافی پریشان کن ہے لیکن ہندوستان میں یہ بہت ہی تشویش ناک حالت میں پہنچ گئی ہے۔ ہندوستان میں آمدنی کے تناسب میں مہنگائی کافی زیادہ ہے اور اس مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن اس رجحان پر روک لگانے کے لیے سرکار کی جانب سے بظاہر کوئی ٹھوس قدم دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اتنے اہم اسمبلی الیکشن کے دوران بھی انتخابی مہم میں عوام کے بنیادی مسائل کے بجائے نان ایشوز کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، صحت و صفائی جیسی بنیادی سہولت کے مسائل کے بجائے موبائل فون اور اسکوٹی جیسی چیزوں کے وعدوں کو ایشو بنایا جا رہا ہے۔ یہ چیزیں اگر مل بھی جائیں تو لوگ اسے چلائیں گے کیسے؟ کیونکہ موبائل فون کی ریچارجنگ کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کے حوالے سے ایک اہم ایشو یہ بھی ہے کہ موبائل فون کے ریچارج کے لیے مہینہ 28 دن کاہی کیوں اور کس بنیاد پر ہوتا ہے۔ مواصلاتی کمپنیوں کے لیے 13 مہینے کا سال کیوں تسلیم کیا جاتا ہے؟ دوسری جانب اگر اسکوٹی مل بھی جاتی ہے تو اسے چلانے کے لیے پٹرول کیسے خریدا جائے کیونکہ یہ روز بروز عام لو گوں کی قوت خرید سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود ووٹرس بھی سیاسی پارٹیوں کے جھانسے میں آکر اکثر گمراہ ہو جایا کرتے ہیںاور وہ بھی جذبات میں بہہ کر حقیقی مسائل کو عین وقت پر فراموش کر جاتے ہیں۔ جس کا خمیازہ بالآخر انہیں ہی بھگتنا پڑ تا ہے۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد جب انہیں ہوش آتا ہے تو تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS