پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور مسلم ووٹرس کا رجحان

0

قربان علی
پانچ ریاستوں مغربی بنگال، آسام، تمل ناڈو، پدوچیری اور کیرالہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ان تمام ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج آئندہ 2مئی تک آئیں گے اور مئی کے پہلے ہفتہ میں ہی ان ریاستوں میں حکومتیں بن جانے کے امکانات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب چاہے ملک کے عام انتخابات ہوں یا کسی ریاست کے اسمبلی انتخاب ، اس میں ایک موضوع مستقل رہتا ہے کہ ’’ان انتخابات میں مسلم ووٹرس کا رجحان کیا ہوگا؟‘‘ اور اگر کسی ریاست میں مسلم ووٹرس کی تعداد25فیصد یا اس سے زیادہ ہو تو پھر اس پر بات کرنا اور بھی لازمی ہوجاتا ہے۔
ابھی جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں، ان میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ آسام میں تقریباً سوا چوتیس فیصد(34.22% ) ، مغربی بنگال میں تقریباً تیس(30% )،کیرالہ میں تقریباً ستائیس(27%) فیصد ہے جبکہ تمل ناڈو میں تقریباً چھ فیصد اور پدوچیری میں تقریباً پانچ فیصد ہے، لہٰذا آبادی اور ووٹروں کی تعداد کے لحاظ سے آسام، مغربی بنگال اور کیرالہ کافی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان ریاستوں میں کئی مسلم سیاسی پارٹیاں بھی سرگرم ہیں اور بی جے پی کے علاوہ تقریباً ہر پارٹی کی منشا زیادہ سے زیادہ مسلم ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے کی رہتی ہے۔
سب سے پہلے بات مغربی بنگال کی۔ 1977سے لے کر 2006تک ریاست کے مسلم ووٹ بینک پر مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی(ایم سی پی) کی قیادت والے بایاں محاذ کا قبضہ تھااور اس ووٹ بینک کے ذریعہ اس نے 29برسوں تک مغربی بنگال پر حکومت کی۔ لیکن ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس نے 2011میں اس ووٹ بینک میں نقب لگا دی۔ اسی ووٹ بینک کے ذریعہ وہ پہلے 2011 اور پھر 2016میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 2016میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس نے294 سیٹوں میں سے 211سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ 2016 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کل 59مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ ان میں سے اکیلے ترنمول کانگریس کے 32مسلم ایم ایل اے الیکشن جیتے۔ 18سیٹوں پر کانگریس اور 9سیٹوں پر بایاں محاذ کے مسلم امیدوار الیکشن جیتے۔
سمجھا جاتا ہے کہ مغربی بنگال کی100سے110سیٹوں پر مسلم ووٹر فیصلہ کن حالت میں ہیں اور ریاست کے تین اضلاع مرشدآباد، مالدہ اور مشرقی دیناج پور سمیت 46اسمبلی سیٹوں پر مسلمانوں کی آبادی 50فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ لیکن اس مرتبہ ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کو چوطرفہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایک جانب تو بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے وقت سے ہی ریاست میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش کررہی ہے تو دوسری جانب مسلم ووٹ بینک میں اس مرتبہ اسدالدین اویسی کی اتحادالمسلمین(اے آئی ایم ایم) اور فرفرا شریف کے مولوی عباس صدیقی انڈین سیکولر فرنٹ بناکر اور کانگریس-بایاںمحاذ کے ساتھ اتحاد کرکے ممتا کو چیلنج دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ مسلم ووٹروں کا رجحان کیا رہتا ہے۔ کیا اس مرتبہ مسلم ووٹر ممتابنرجی سے دامن چھڑا کر کانگریس-بایاںمحاذ کے ساتھ جاتا ہے یا اویسی کی اے آئی ایم ایم کے ساتھ جاتا ہے۔ پانچ ماہ قبل اے آئی ایم ایم نے بہار کے سیمانچل علاقہ میں اپنی زبردست اینٹری کی تھی اور راشٹریہ جنتا دل-کانگریس-بایاں محاذ کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ چلا گیا تھا یا ترنمول کانگریس کے ساتھ ہی بنا رہتا ہے۔ اگر ممتابنرجی کی حکومت میں واپسی ہوتی ہے تو اس میں مسلم ووٹروں کا اہم رول ہوگا۔
2013میں اقوام متحدہ نے ہندوستان کے اہم علاقوں میں ملینییم ترقیاتی اہداف (Millennium development goals)کو نشان زد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں غریب مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ آسام، مغربی بنگال، اترپردیش اور گجرات میں ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ جہاں تک مذہبی گروہوں کا معاملہ ہے مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد ان ریاستوں میں سب سے زیادہ ہے۔‘‘
2016میں مشہور ماہرمعاشیات اور نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے کولکاتہ میں ’’لیونگ ریئلٹی آف مسلم ان ویسٹ بنگال‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مغربی بنگال میں مسلمان، غریب طبقہ کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاست میں مسلمان متناسب نظر سے زیادہ غریب ہیں اور ان کی زندگی میں نسبتاً زیادہ محرومیاں ہیں اور اس پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس سے پہلے 2006میں مرکزی حکومت کے ذریعہ تشکیل دی گئی سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی جو صورت حال بیان کی گئی تھی، وہ خوفزدہ کرنے والی تھی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں روزگار اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں مسلمانوں کے ساتھ تفریق اور انہیں الگ تھلگ رکھے جانے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آبادی کے لحاظ سے جن دو ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد کافی ہے ان میں مغربی بنگال اور آسام میں مسلمانوں کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کو جاری ہوئے ڈیڑھ دہائی سے بھی زائد وقت گزر گیا لیکن مسلمانوں کے حالات بہت زیادہ نہیں بدلے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS