اشرف غنی تاجکستان منتقل،ملابرادر کے نئے صدر بننے کا امکان

0
republicworld.com

کابل (ایجنسیاں) : افغان طالبان نے کابل میں داخل ہونے کے بعد میڈیا رپورٹ کے مطابق صدارتی محل پر کنٹرول کرلیا ہے اور افغان صدر اشرف غنی استعفیٰ دے کر اپنے نائب صدر نائب امراللہ صالح کے ساتھ افغانستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ملاعبدالغنی برادر ملک کے نئے سربراہ بن سکتے ہیں۔ ایک اور نام ہیبت اللہ اخند زادہ کابھی آرہا ہے، وہ بھی صدر کے دعویدار ہوسکتے ہیں۔ فی الحال طالبان نے کابل میں فورسیز کی چوکیاں سنبھال لی ہیں۔ اقتدار میں حصے داری کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ ایک وفد پاکستان پہنچا ہے، تو یہ بھی خبر ہے کہ افغان مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ طالبان سے مذاکرات کیلئے قطر روانہ ہوسکتے ہیں۔ ادھر سابق صدر حامد کرزئی نے ایک مصالحتی کونسل تشکیل دی ہے،جس میں عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار بھی شامل ہوں گے۔ تاہم طالبان نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ طالبان نے افغانستان کے 90فیصد ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔امریکہ،برطانیہ اور ہندوستان اپنے شہریوں کووہاں سے نکالنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔
Taliban’s Mullah Baradar Likely To Be Next Afghanistan President; Here’s What We Know So Far
ایرانی میڈیا نے یہ اطلاع دی ہے ۔آئی آر آئی بی کے براڈکاسٹر نے رپورٹ کیا ہے کہ افغان حکومت اب صرف کابل اور گردونواح کے صوبوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ افغانستان سے بین الاقوامی فوجیوں کے انخلاء کے بعد وہاں عسکریت پسندوں کے حملوں اور طالبان کے تسلط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کو طالبان کے گھیرے میں لینے کے بعد کئی سینئر عہدیداربھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے تاجک میڈیا کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اشرف غنی نائب صدر امراللہ صالح کے ہمراہ کابل سے تاجکستان چلے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دونوں افراد تاجکستان کے درالحکومت دوشنبہ میں ہیں اور ان کے وہاں سے کسی تیسرے ملک روانہ ہونے کا امکان ہے ۔قبل ازیں افغان وزارت داخلہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان تمام اطراف سے کابل میں داخل ہو رہے ہیں۔تاہم طالبان کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ وہ بزور طاقت کابل پر قبضہ نہیں کریں گے۔ اسی کے ساتھ افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار میرز کوال کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے ۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق کابل میں سرکاری دفاتر کو خالی کروا لیا گیا ہے، جبکہ کچھ علاقوں میں دکانیں بھی بند کر دی گئی ہیں، جبکہ طالبان نے کابل جانے والی تمام مرکزی شاہراؤں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔


کابل میں داخل ہونے کے بعد افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ملک میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی امارات افغانستان کے دروازے ان تمام افراد کیلئے کھلے ہیں، جنہوں نے حملہ آوروں کی مدد کی۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پہلے بھی معاف کیا اور ایک بار پھر سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور قوم و ملک کی خدمت کریں۔ افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہی پل چکری جیل پر قبضہ کرکے قیدیوں کو چھڑالیا ہے، جبکہ بل چرخی جیل پر بھی قبضہ کرکے قیدیوں کو آزاد کروالیا ہے۔ روس نے افغان دارالحکومت کابل میں تعینات اپنے سفارتی عملے کو واپس نہ بلانے کا فیصلہ کیا ہے ، روس کا کہنا ہے کہ فی الحال کابل میں سفارتی عملے کو واپس بلانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ روسی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ روس کا سفارتی عملہ پر سکون ماحول میں کام کررہا ہے۔ سفارت خانے کی بندش کے حوالے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ تاحال سفارت کو بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، تاہم کابل میں سفارتی عملے کی سیکورٹی کیلئے تمام اقدامات کیے گئے ہیں۔ناٹوکے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اسٹاف کے کئی ارکان کابل میں نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں، جبکہ امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ امریکی سفارت خانے کا 50افراد سے بھی کم عملہ کابل میں موجود ہے۔ دریں اثنا ذرائع نے بتایا ہے کہ آج صبح کچھ ہیلی کاپٹروں کو امریکی سفارتخانے کی جانب آتے دیکھا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اپنا سفارتی عملہ وہاں سے نکال لیا ہے ۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی سفارتخانے کی حساس دستاویزات کو جلا دیا گیا ہے اور سفارتخانے سے دھواں نکلتے بھی دیکھا گیا تھا۔ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کابل میں موجود یوروپی یونین کے سفارتکاروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں جنگجو باغی تنظیم طالبان نے ننگرہار صوبے کے دارالحکومت جلال آباد پر قبضہ کر لیا تھا۔ کابل پر قبضے کے بعد افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 25 صوبے طالبان کے کنٹرول میں آگئے۔ اس سے قبل افغان وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ طالبان نے کابل میں پل چرخی جیل کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ ذرائع وزارت داخلہ نے مزید کہا کہ طالبان پل چرخی جیل سے اپنے قید ساتھیوں کو نکال رہے ہیں۔ ذرائع وزارت داخلہ کے مطابق پل چرخی دارلحکومت کی سب سے بڑی جیل ہے۔ افغان دارالحکومت کابل کے گرد پہنچ جانے والے طالبان نے بگرام ائیربیس میں واقع بگرام فوجی جیل خانے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو کہ کابل کے شمال میں 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ طالبان نے جیل خانے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہاں سے قیدیوں کو جن میں زیادہ تر طالبان جنگجو شامل تھے انھیں رہا کردیا ہے۔ واضح رہے کہ بگرام ایئر بیس جو کہ افغانستان میں سب سے بڑا امریکی فوجی مستقر تھا اب اس کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس سال کے اوائل میں اپنی فوج افغانستان سے واپس بلانے کے فیصلے کے بعد اس جیل خانے کا کنٹرول اس سال یکم جولائی کو افغان مسلح افواج کے حوالے کیا گیا تھا۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغان دارالحکومت کابل پر حملہ نہیں ہوا،کابل کا تحفظ افغان فورسز کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار کی منتقلی کا عمل پر امن طریقے سے ہوگا اور کابل میں شہریوں کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے گا۔شہر کے حالات اور افراتفری کا ماحول کودیکھتے ہوئے ترجمان طالبان کے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اسپتالوں کو ایمرجنسی سپلائی نہیں روکی جائے گی جب کہ غیر ملکی شہری اپنی خواہش پر کابل چھوڑ سکتے ہیں۔غیر ملکی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان رہنماؤں نے کسی بھی قسم کا انتقام نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی سیز فائر کا اعلان نہیں کیا، لیکن ہم تنہا اور معصوم افغان شہریوں کو زخمی یا قتل نہیں کرنا چاہتے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے کابل شہر سے نکلنے والوں کو راستہ دینے اور خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا بھی اعلان کیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا طالبان صدارتی محل میں داخل ہوچکے ہیں اور افغان وزارت داخلہ نے کابل میںرات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ بہرحال کابل میں طالبان کے داخلے سے پہلے لڑائی کے جواندیشے ظاہر کئے جارہے تھے، وہ غلط ثابت ہوئے۔ اقتدار کی منتقلی مذاکرات کے ذریعے پرامن ہوئی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS