فن ترجمہ: کثیر لسانی اور ثقافتی تنوع کاخوبصورت عکاس

0

پروفیسر محمد جہانگیر وارثی

اقوام متحدہ کے مطابق بین الاقوامی دن ایسے مواقع ہیں جو لوگوں کو انسانی مسائل کے تئیں بیدار کرتے ہیں تاکہ ان عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے سیاسی ارادے مستحکم اور فعال ہوں۔ ان مخصوص دنوں کا مقصد بنی نوع انسان کی کامیابیوں کا جشن منانا بھی ہے جن سے مزید محنت اور کام کرنے کی تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ نے ایسے سبھی دنوں، ہفتوں، سالوں اور دہائیوںکو کسی نہ کسی مخصوص مقصد یا عنوان سے مختص کیا ہے۔ ان مخصوص مقاصد کو عنوان بنانے سے اقوام متحدہ کا مقصد ان مسائل پر بین الاقوامی بیداری اور عمل کو فروغ دینا ہے۔ ہر بین الاقوامی دن اس سے متعلق موضوع کے بارے میں سرگرمیوں کو منظم کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 24 مئی 2017 کو قومیتوں کو جوڑنے اور امن، افہام و تفہیم اور ترقی کو فروغ دینے میں زبان کے میدان میں کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے کردار سے متعلق ایک قرارداد منظور کی اور 30 ستمبر کو بین الاقوامی یوم ترجمہ قرار دیا۔ اس دن کو بائبل کے مترجم سینٹ جیروم کی عید کے جشن سے مناسبت ہے، جن کو مترجمین کا سرپرست تسلیم کیا جاتا ہے۔
مترجمین کی بین الاقوامی فیڈریشن یونیسکو (UNESCO) کے ساتھ فعال تعلقات رکھتی ہے اور بین الاقوامی یوم ترجمہ کو فروغ دینے کے ساتھ ہی انٹرنیشنل ٹرانسلیشن ڈے کے لیے ایک موضوع کا انتخاب کرتی ہے۔ سال2021 کے لیے اس دن کی تھیم ’’یونائٹیڈ اِن ٹرانسلیشن‘‘ (United in Translation) ہے۔
لسانی اعتبار سے دنیا کا امیر ترین ملک ہونے کے ناطے ہندوستان کو اپنی کثیر لسانیت اور ثقافتی تنوع پر ہمیشہ سے فخر رہا ہے۔ اس بات پر عوام میں لگاتار بیداری پیدا ہورہی ہے کہ ثقافتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار ترقی کے لیے علم دوست معاشرے کو مضبوط بنانے میں زبانیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح، کسی زبان میں موجود معنی و اظہار کے توسط سے کسی شخص کی مذہبی اور ثقافتی تنوع کی بہتر تفہیم کی صلاحیت کو بڑھانے میں ترجمہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زبان کو مستقل طور سے ترقی پذیر خصوصیات کے ساتھ انتہائی متحرک اور پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک مضمون کے طور پر ترجمہ ثقافت اور معاشرے کے ساتھ بامعنی دلچسپی اور مصروفیت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ترجمہ مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کے درمیان حقیقی تفہیم قائم کرنے کے لیے ہمیشہ مقبول عام جملے، ان میں مندرج جذبات اور عوامی بول چال کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ زبانیں از خود سماجی اور تاریخی طور پر تشکیل پانے والی تفہیم اور ثقافتی تناظرکے نمونوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ زبان اپنے مقاصد سے بالاتر ترسیل کے لیے ضروری ہے۔ یہ ان عناصر کو ظاہر کرتی ہے جو حقیقی ثقافتی تفہیم کے لیے اہم ہیں۔ مترجمین کو عام طور پر اپنے کام میں چھ مختلف مشکل مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں لیکسیکل-سیمنٹک مسائل، گرامر، صرف و نحو، جملہ سازی اور عملی و ثقافتی مسائل شامل ہیں۔
گلوبلائزیشن اور مابعد 9/11 کے تناظر میں دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے لوگوں کی ثقافت اور روایات کو سمجھنے کے لیے زبانوں کے مطالعہ کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ زبان اور اس کے مختلف النوع استعمال کے بارے میں مختلف نظریات کا اظہار زبان کے مطالعے کے مختلف طریقوں میں بھی ہوتا ہے۔ ایک طرف زبان کو انسانی فکر اور معلومات کی ترسیل کے لیے بنیادی آلہ کار تسلیم کیا جاتا ہے، وہیں دوسری جانب زبان کو انسان کے غوروفکرکے عمل، نظریات اور خود کے اظہارکا لازمی عنصر سمجھا جاتا ہے، اس تناظر میں اسے انسان کی بین لسانی اور بین ثقافتی اہلیت کا مرکزی جزتسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک جانب ہم اپنی ضروریات کی دوسروں تک ترسیل کے لیے زبان کا استعمال کرتے ہیں، وہیں دوسری جانب زبان ہمیں خود پراور دوسروں پر ظاہر کرنے کے عمل کو بھی پورا کرتی ہے۔ زبان ایک پیچیدہ کثیر العمل مظہر ہے جو ایک فرد کو دوسرے افراد، برادریوں اور قومی ثقافتوں سے جوڑتا ہے۔

ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ، ترجمہ کے کام میں بھی حالیہ برسوں میں بہتری آئی ہے۔ مترجمین اور ماہرین اب کمپیوٹر کی مدد سے ٹرانسلیشن سافٹ ویئر جیسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے قابل بن چکے ہیں جس میں بہتر نتائج کے حصول کے لیے اصطلاحات، الفاظ کی ہجے کی جانچ اور ٹرانسلیشن میموری ٹولز کا استعمال شامل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان کو مختلف زبانوں اور ثقافتوں کی ہم آہنگی کا اعزاز حاصل ہے۔ اس تناظر میں مختلف قومیتوں اور ثقافتوں کے درمیان افہام و تفہیم کے پلوں کی تعمیر میں مترجمین کا کردار ہمیشہ اہمیت کا حامل رہے گا۔

انٹار(Antar) کے مطابق ’’ترجمہ ایک سائنس، ایک فن اور ایک ہنر ہے۔‘‘ یہ اس لحاظ سے ایک سائنس ہے کہ اس کے لیے متعلقہ دو زبانوں کے ڈھانچوںاور تجسیم کا مکمل علم درکار ہوتا ہے۔ یہ آرٹ اس لیے ہے کہ اصل متن کو ایک مکمل پروڈکٹ کی شکل میں ان قارئین کے سامنے جو اصل زبان سے واقف نہ ہوں، پیش کرنے کے لیے مترجم کو فنکارانہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ مہارت اس لیے ہے کہ یہ ترجمہ میں درپیش کسی بھی مشکل کو ہموار کرنے اور کسی ایسی چیز کا ترجمہ فراہم کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جس کا کوئی مساوی لفظ ترجمہ ہونے والی زبان میں موجود نہ ہو۔
ترجمہ انسانوں کو دو مختلف زبانوں میں خیالات اور احساسات کے تبادلہ کو ممکن بناتا ہے۔ مترجمین اور ترجمان معاشرے اور علمی حلقے میں اس بات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں کہ درست معلومات کے ساتھ اور حساس طریقے سے سبھی طبقوں کے جذبات، خیالات اور احساسات ایک زبان سے دوسری زبان کے قارئین تک منتقل ہو سکیں۔ تاہم، مترجمین کو بنیادی طور پر مذہبی، قانونی، تکنیکی، علاقائی اور مقامی نوعیت کے احساسات و جذبات کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرتے وقت کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی متن کے ترجمہ میں اہم مسئلہ لسانی نظاموں اور زبانوں میں فرق کی وجہ سے ہوتا ہے جو زیادہ تر ماخذ اور ہدف زبانوں کے درمیان اصطلاحوں کی عدم ترویج کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا کوئی آفاقی اصول موجود نہیں ہے جو ترجمہ کے ہر مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہو۔ مترجمین ایک ہی مسئلے کوالگ الگ معاملوں میں دو مختلف طریقے اختیار کر کے حل کرنے کے حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ ایک مترجم کا کام نسبتاً اس صورت میں انتہائی اہم ہوجاتا ہے جب وہ ان لوگوں کیلئے ترجمہ کرتا ہے جو اپنی بات کو خود نہیں کہہ سکتے یا جن کے پاس اس کے اظہار کے لیے ضروری وسائل فراہم نہیں ہیں۔
ترجمہ کا مقصد ایک زبان میں اس بات کو کہنا یا لکھنا ہے جو کسی دوسری زبان میں کہی گئی ہو۔ یہ مترجم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیرٹارگٹ ریڈر کی توقعات کے مطابق واضح کرے تاکہ اس کا ترجمہ اسلوب اور معانی کے لحاظ سے اصل متن سے مشابہ ہو۔ اصل متن کی ترجمانی اس انداز میں کی جانی چاہیے کہ ٹارگٹ ریڈر کو متن کا اصل مفہوم سمجھنے میں غیر ضروری کوشش نہ کرنی پڑے۔ زبان کو سمجھنے اور اس کا مافی الضمیرٹارگٹ زبان میں ادا کرنے کی مترجم کی صلاحیت اس کی علمی اور لسانی استعداد سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک اچھا ترجمہ اسے کہا جائے گا جو اصل متن کے معانی کو ٹارگٹ زبان میں تقریباً مکمل صحت کے ساتھ منتقل کرنے میں کامیاب ہو، گو کہ اس کا مقصد ہمیشہ یہی ہوگا کہ اسی معنی اور پیغام کی عام سطح پر ممکنہ حد تک درستگی کے ساتھ ترسیل کی جائے۔
ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ، ترجمہ کے کام میں بھی حالیہ برسوں میں بہتری آئی ہے۔ مترجمین اور ماہرین اب کمپیوٹر کی مدد سے ٹرانسلیشن سافٹ ویئر جیسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے قابل بن چکے ہیںجس میں بہتر نتائج کے حصول کے لیے اصطلاحات، الفاظ کی ہجے کی جانچ اور ٹرانسلیشن میموری ٹولز کا استعمال شامل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان کو مختلف زبانوں اور ثقافتوں کی ہم آہنگی کا اعزاز حاصل ہے۔ اس تناظر میں مختلف قومیتوں اور ثقافتوں کے درمیان افہام و تفہیم کے پلوں کی تعمیر میں مترجمین کا کردار ہمیشہ اہمیت کا حامل رہے گا۔
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ لسانیات کے صدر ہیں )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS