سنجے سنگھ کی گرفتاری

0

ملک، جمہوریت ، اظہار رائے کی آزادی ، فرد کی آزادی ، مذہب کی آزادی وغیرہ کی فکر رکھنے اوراس پر اونچی آواز میں بولنے والا کوئی بھی شخص 2014 کے بعد سے محفوظ نہیں ہے، ایسے تمام لوگ کڑے حالات سے گزررہے ہیں۔
ایسی ہی اونچی آواز میں بولنے والے ایک اورشخص کو حکومت نے خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔حکومت کے اشارے پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بدھ کے روز عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو گرفتار کرلیا ہے۔ان پر الزام ہے کہ وہ شراب گھوٹالہ میں ملوث ہیں۔اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے ایسے ہی ایک لیڈر منیش سسودیا کو گرفتار کیا گیا تھا جو اب تک جیل میں ہیں۔اپنی گرفتاری پر سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بزدل ہیں اور اپوزیشن لیڈروں کو زبردستی جیل میں ڈال کر آمرانہ طریقے سے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔لیکن انہیں یہ سمجھ لیناچاہیے کہ جیسے جیسے مظالم بڑھتے ہیں،لوگوں کی آوازیں بلند ہوتی جاتی ہیں۔ میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں موت کو خوف پر ترجیح دوں گا۔ آپ سب یقین رکھیں، چاہے مجھے کتنی ہی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں، میں سچ بولتا رہوں گا۔
سنجے سنگھ عام آدمی پارٹی کے ایسے لیڈر ہیں جو ایوان میں مسلسل حکومت کے خلاف اونچی آواز میں بولتے رہتے ہیں۔ حکومت کی ہر پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ سنجے سنگھ پارلیمنٹ میں بھی حکومت کیلئے مسلسل مسائل پیدا کر رہے تھے۔ راہل گاندھی کی طرح ہی وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی دوستوں کی بدعنوانی کے خلاف بارہا بولتے رہے ہیں۔اس سے پہلے انہیں دوسرے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ معطل بھی کیا جاچکا ہے اور اس معطلی کے خلاف بھی وہ بولتے ہوئے پارلیمنٹ کے باہر دھرنے پر بیٹھ چکے ہیں۔اب انہیں گرفتار ہی کرلیاگیا ہے۔عام آدمی پارٹی نے بجا طور پر کہا ہے کہ سنجے سنگھ کی گرفتاری دراصل اپوزیشن کی آواز دبانے کی مذموم کوشش ہے۔گزشتہ 15 مہینوں سے بی جے پی کی مرکزی حکومت، ان کی تمام ایجنسیاں اور ان کے 500 سے زیادہ افسران نام نہاد ایکسائز گھوٹالے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ سی بی آئی اور ای ڈی نے اس جانچ میں 500 سے زیادہ افسران کو تعینات کیا ہے۔ افسران نے ہزاروں مقامات پر چھاپے مارے لیکن بی جے پی اور اس کی مرکزی حکومت عدالت میں ایک روپے کی بدعنوانی کے ثبوت پیش نہیں کر پائی ہے۔ سنجے سنگھ کے گھر بھی چھاپے میں ای ڈی کو کچھ بھی نہیں ملا، نہ نوٹوں کے پہاڑ ملے، نہ کاغذی ثبوت و شواہد کے انبار، اس کے باوجود انہیں گرفتار کرلیاگیا۔
دراصل مرکز کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیراعظم نریندر مودی کو تنقید و اختلاف قطعی پسند نہیں ہیں اوریہ اپنی اس ناپسندیدگی کو چھپاتے بھی نہیں ہیں۔ اپنے ناقدین کو کھلے بندوں ہدف ملامت بناتے ہیں اور اقتدار سے محروم کھسیانی بلی سے تعبیر کرتے ہیں جو صرف کھمبا ہی نوچ سکتی ہے۔بارہا ایسی مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں جن میں دیکھاگیا ہے کہ حکومت اور حکمراں جماعت کے خلاف باتیں کرنے والے سیاسی رہنمائوں، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ابھی دو تین روز قبل ہی ممتاز صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائی ہوئی، ان پر یو اے پی اے کی سخت دفعات کے تحت ریاست دشمنی کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔بی جے پی چاہتی ہے کہ2024کے لوک سبھا انتخاب کا اعلان ہونے سے پہلے اس کی راہ میں مزاحم تمام ’کانٹے‘ ہٹادیے جائیں۔اپوزیشن اتحاد ’ا نڈیا‘ قائم ہونے کے بعد سے تو بی جے پی ایسا لگتا ہے جیسے بوکھلا سی گئی ہو اور اسی بوکھلاہٹ میں اس نے اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف تمام مرکزی ایجنسیوں کا استعمال بیک وقت شروع کردیا ہے۔ اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں کے رہنما بھی ایسے ہی حالات سے گزررہے ہیں، کسی کو گرفتار کرلیا گیا ہے ،کسی پر نظر رکھی جارہی ہے توکسی کو دھمکی دی جارہی ہے۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے لیڈر ابھیشیک بنرجی تو جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین جیسے لیڈران مرکزی ایجنسیوں کے نشانے پرہیں۔
سنجے سنگھ کی گرفتاری اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ 2024 کے عام انتخاب سے پہلے پہلے اپوزیشن کے ایسے کئی اور رہنمائوں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے جو حکومت کے خلاف مسلسل بولتے رہتے ہیں۔یہ ملک میں غیرعلانیہ طور پر لگائی گئی ایمرجنسی ہے جس کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ احتجاج کیا جانا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS