اے پی جے عبدالکلام سادہ لوح انسان تھے 

0

اے پی جے عبدالکلام کی آج پانچیوں برسی ہے۔ 27جولائی 2015کو میگھالے میں دل کا دورا پڑنے سے ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ان کی عمر 83سال تھی جب وہ اس دنیا
سے رخصت ہوئے۔ہندوستان کی’اگنی‘میزائل کو اڑان دینے والے مشہورسائنس دان عبدالکلام ۔ڈاکٹر کلام کو میزائل مین کے نام سے جانا جاتا ہے۔
طالب علم ان کو اپنا آئیڈیل ماتنے تھے اورمانتے ہیں۔آج ان کی برسی پر پورا ہندوستان انہیں یاد کررہا ہے اور انہیں خراج تحتسین پریش کررہا ہے ۔وہ صبح سے سوشل
میڈیا کے ٹائپ ٹرینڈ میں شامل ہیں اور ان کے خیالات کو شیئرکرکے تمام ہندوستانی انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ 
ایک مچھوارے کے بیٹے ایبل پاکر ڈاکٹرابوالفاخرزین العابدین عبد الکلام نے 18جولائی 2002کو ملک کے 11ویں صدرمنتخب ہوئے۔وہ اپنے ہیئراسٹایل کے کو لیکر
کافی مشہور بھی تھے۔انہوں نے سانسداں اور صدر کے طور پر ملک کے لئے اہم رول ادا کیا۔
واجپئی نے ملائم سنگھ یادو کو اے پی جے عبد الکلام کا نام تجویز کرنے کا کام سونپا۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے عبدالکلام  کے خلاف لکشمی سہگل کو میدان میں اتارا۔
عبدالکلام الیکشن جیت کر ملک کے 11 ویں صدر بنے۔
عبدالکلام کو 1981میں پدم بھوشن اور اس کے بعد 1990میں پدم ویبھوشن اور 1997میں ملک کے اعلی شہری اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا۔ ملک کے اعلی
عہدے پر تقرری سے قبل بھارت رتن حاصل کرنے والے ملک کے صرف تیسرے صدر ہیں۔ ان سے پہلے یہ مقام سرپلی رادھا کرشنن اور ذاکر حسین نے حاصل کیا تھا۔
عبدالکلام کی سادگی:
عبدالکلام کی سادگی کا واقعہ، ایک بار عبدالکلام کے کچھ رشتے دار ان سے ملنے صدر جمہوریہ ہائوس آئے۔50سے60لوگ تھے ان سب کا رہنے کھانے کا خرچ
انہوں نے خود اپنی جیب سے دیا۔انہوں نے اپنے مہمانوں کا خرچ انپی ذاتی آمدنی سے کیا۔ ایک ہفتہ کا رشتہ داروں کا خرچ تین لاکھ چوون ہزار نو سو چوبیس روپے
خرچ ہوا۔
کلام ایک بار آئی آئی ٹی (بی ایچ یو)میں ایک پرگرام گئے تھے انہوں نے دیکھا کہ پانچ کرسیاں رکھی ہیں ان میں بیچ والی کرسی کا سائیز باقی چار کرسیوں سے چھوٹی
تھیں ۔ عبدالکلام نے اس کرسی پر بیٹھنے سے منا کردیا۔ انہوں نے وائس چانسلر (وی سی) سے اس کرسی پر بیٹھنے کی گزارش کی۔ وی سی کس طرح اس بڑی کرسی پر
کیسے بیٹھتے۔ دوسری کرسی لائی گئی ۔ تب جاکر عبدالکلام اس کرسی پر بیٹھے۔
صدر بننے کے بعد وہ پہلی بار کیرل گئے تھے۔وہ راج بھون میں مقیم تھے۔ ان کے پاس سب سے پہلے مہمان کوئی اور نہیں بلکہ سڑک پر جوتے بنانے والا موچی اور
ایک چھوٹے ہوٹل کا مالک تھا۔
ایک سانس داں کے طور پر عبدالکلام نے تریوندرم میں کافی وقت گزارا تھا۔ اس موچی نے ان کے جوتے گانڈھے تھے اور اس چھوٹے سے ہوٹل میں انہوں نے کھانا کھایا
تھا۔
عبدالکلام کا وقت جب صدر ہائوس سے جارہے تھے تو ان سے الوداعی تقریر کے لے کہا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ الوداعی کیسی،میں اب بھی ایک ارب دیش واسیوں کے
ساتھ ہوں۔
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS