مہنگائی کی ایک اور مار

0

اشیائے ضروریہ میں تھوڑا سا بھی اضافہ عام لوگوں کے بجٹ کو بگاڑ دیتا ہے۔ اسی لیے حکومتوں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول میں رکھیں اور اشیا کی قیمتوں میں اگر اضافہ ہی کرنا پڑے تو ان چیزوں کی قیمتوں میں نہ اضافہ کریں جن سے لوگوں کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان مہنگا ہو جائے، علاج و معالجے کے خرچ میں اضافہ ہو جائے، مگر ہو یہی رہا ہے۔ایسی چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جن سے عام لوگوں کا متاثر ہونا فطری ہے۔ بڑھتی مہنگائی ان لوگوں کے لیے زیادہ باعث دشواری بن جاتی ہے جو بے روزگار ہیں مگر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ایل پی جی سلنڈر کی قیمت میں بھی 50 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اب گھریلو ایل پی جی سلنڈر کی قیمت 999.50 روپے ہوگئی ہے جبکہ 85 فیصد ہندوستانی کنبوں کے پاس ایل پی جی کنکشن ہے اور 70 فیصد ہندوستانی کنبہ کوکنگ کے لیے ایل پی جی پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی لیے اس سوال کی تو اہمیت ہے کہ کیا ایل پی جی سلنڈر کی قیمت میں 50 روپے کا اضافہ کرنے سے پہلے حکومت نے اس پر غور کیا کہ مارچ 2022 تک بے روزگاروں کی تعداد7.60 فیصد تھی، اس سوال کی اہمیت زیادہ ہے کہ کیا ملک کی اقتصادی حالت کو دیکھتے ہوئے ہی پہلے ریزرو بینک نے ریپو ریٹ میں اضافہ کیا اور اب ایل پی جی سلنڈر کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ پٹرول، ڈیزل اور سی این جی کی بڑھتی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے بھی اس سوال کی اہمیت ہے۔
سڑکوں کے نیٹ ورک کے معاملے میں ہندوستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ ریلوے نیٹ ورک کے معاملے میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ ہمارے ملک میں سڑکوں پر چلنے والی زیادہ تر گاڑیاں پٹرول اور ڈیزل سے چلتی ہیں، کئی ٹرینیں ابھی بھی بجلی سے نہیں چل رہی ہیں۔ ایسی صورت میں جب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا اثر ان سبھی چیزوں پر پڑتا ہے جن کی سپلائی ایک شہر سے دوسرے شہر میں کی جاتی ہے، اس لیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب یہی نہیں ہے کہ بس، کار اور بائیک سے سفر مہنگا ہو جائے گا، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دال، گیہوں، چاول، تیل اور مصالحے بھی مہنگے ہو جائیں گے، کیونکہ وطن عزیز ہندوستان میں 99.6 فیصد پٹرول کی کھپت ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ہوتی ہے۔ اس میں سے دو پہیہ گاڑیوں میں 61.42 فیصد، کاروں میں 34.33 فیصد جبکہ تین پہیہ گاڑیوں میں 2.34 فیصد پٹرول کی کھپت ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈیزل کی کھپت ٹرانسپورٹ سیکٹر میں 70 فیصد ہوتی ہے۔ اس میں سے 28.25 فیصد ڈیزل کی کھپت ٹرکوں، 9.55 فیصد کی کھپت بسوں اور 3.24 فیصد کی کھپت ریلویز میں ہوتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کا تعلق عام لوگوں سے کس حد تک ہے، اس لیے ان کی قیمتوں میں اضافے سے دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور عام لوگوں کو بجٹ کے بگڑنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوال اٹھے گا کہ کیا اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اس حد تک کنٹرول میں نہیں رکھی جا سکتیں کہ عام لوگ راحت محسوس کریں؟ ان کی فکر میں اضافہ نہ ہو؟
یہ بات صحیح ہے کہ پہلے 2020 سے کورونا وائرس نے اور اس کے بعد روس-یوکرین جنگ نے دنیا بھر کے ملکوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان ملکوں میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ ہماری حکومت اقتصادی شرح نمو میںاضافے کے لیے مسلسل کوشش کر رہی ہے مگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے بڑھنے کا اثر عام لوگوں پر پڑے گا تو ان کی قوت خرید کم ہوگی، اس کا اثر اشیا کی کھپت پر پڑے گا، کھپت کم ہونے پر پر وڈکشن متاثر ہوگا اور اس کا اثر اقتصادیات پر پڑے گا۔ اسی لیے مہنگائی پر قابو رکھنا بے حد اہم سمجھا جاتا ہے۔ حکومتوں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ عام لوگوں کے پاس پیسہ ہو، وہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں ہوں تاکہ اشیا کی کھپت اور پروڈکشن کی رفتار برقرار رہے، کیونکہ اس رفتار کے متاثر ہونے کی صورت میں بے روزگاری بڑھتی ہے، مفلسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ حکومت کے لیے یہ امتحان کا وقت ہے مگر اس سے پہلے بھی ہمارے ملک کی حکومتیں امتحان کے دور سے گزر چکی ہیں۔ پہلے تیل پیدا کرنے والے دو اہم ملکوں ایران-عراق کے مابین جنگ ہوئی، پھر عراق کے خلاف دو جنگیں ہوئیں، اس کے بعد 2007 سے 2009 کی عالمی کساد بازاری نے پریشان کیا، اس کے باوجود وطن عزیز ہندوستان نے اقتصادی ترقی کی ہے تو یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ اس کی اقتصادی ترقی برقرار رہے گی مگر بہتر یہی ہے کہ ہمارا ملک عام لوگوں کو راحت کا احساس دلاتے ہوئے اقتصادی ترقی کرے اور اس کے لیے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول رکھنا نہایت ضروری ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS