بائیڈن:عید کی مبارکبادی اور پیغام کی معنوی گہرائی

0
بائیڈن:عید کی مبارکبادی اور پیغام کی معنوی گہرائی

محمد عباس دھالیوال

گزشتہ ہفتے دنیا کے مختلف ممالک میں عید الفطر کا تہوار نہایت جوش و خروش اور خوش اسلوبی سے منایا گیا۔دراصل یہ تہوار کورونا وبا کے پھیلاؤ کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے اتنے وسیع پیمانے پر منایا۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح امریکہ میں بھی مسلمانوں نے عید الفطر کو نہایت عقیدت و خوشی سے منایا۔جبکہ اس موقع پر گزشتہ دو برس سے جاری کورونا پابندیوں میں نرمی کے بعد امریکہ کے ایوانِ صدر میں بھی ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
واضح ہو کہ اس سے قبل ٹرمپ کے دور حکومت میں عیدالفطر کی تقریب اور افطار کا کوئی بھی پروگرام وہائٹ ہاؤس میں منعقد نہیں ہوا تھا۔ بس عید کے موقع پر ایک مبارکباد کا پیغام بھیجا جاتا تھا۔اس کے علاوہ کوئی خصوصی تقریب کا انعقاد نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی پریس کو مدعو کیا جاتا تھا.
جبکہ اس بار مذکورہ ضمن میں عید الفطر کی اس منعقد ہونے والی تقریب کی میزبانی امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور خاتونِ اول جل بائیڈن نے کی۔ اس کے علاوہ تقریب میں نائب صدر کملا ہیرس کے شوہر ڈگلس ایمہوف بھی شریک ہوئے۔
اس سے قبل وہائٹ ہاؤس نے اتوار کو رمضان کے اختتام اور عید کی آمد کے موقع پر صدر جو بائیڈن اور خاتونِ اول جل بائیڈن کا ایک خصوصی مشترکہ پیغام بھی جاری کیا۔ اس پیغام میں صدر اور خاتونِ اول کی جانب سے عید پر نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا تھا۔
عیدالفطر کے موقع پر جاری اس بیان میں صدر اور خاتون اول کا کہنا تھا کہ عید عبادات کے لیے خاص مقدس مہینے رمضان کی تکمیل کے موقع پر کمیونٹیز اور خاندانوں کے مشترکہ اظہارِ مسرت کا موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ عید مسلمانوں کو غربت، بھوک، تنازعات اور بیماروں سے متاثرہ افراد کو یاد رکھنے اور سب کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے مشترکہ کوششوں کی یادہانی کا موقع بھی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ قرآن پاک انسانوں پر انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے زور دیتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اقوام اور قبائل ایک دوسرے سے تعارف کے لیے بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ سب کے لیے یکساں مذہبی آزادی کی روایت ہمارے ملک کو مضبوط بناتی ہے اور ہم تمام عقائد اور ہر طرح کے پس منظر سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ مل کر مذہبی آزادی کے اس اصول کے تحفظ کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
صدر جو بائیڈن اور خاتونِ اول جل بائیڈن نے اپنے خصوصی پیغام میں اعلان کیا کہ اس برس سے وہائٹ ہاؤ س میں عید منانے کی روایت کو دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے ان امریکی مسلمانوں کو مدعو کیا جائے گا جو قومی سطح پر افہام و تفہیم اور اتحاد کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل گزشتہ برس کورونا وبا کے باعث وہائٹ ہاؤس میں عید کے موقع پر ورچوئل تقریب منعقد ہوئی تھی۔ عیدالفطر پر جاری ہونے والے اس صدارتی پیغام میں خاص طور پر پناہ گزینوں کا ذکر بھی کیا گیا۔
پیغام میں یہ بھی کہا گیا کہ ہمیں اس موقع پر اپنے خاندان سے دور تہوار منانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے اور دنیا کے لیے امریکہ کو امید کا استعارہ بنانے کے عزم کو برقرار رکھنا چاہیے۔
ادھر عیدالفطر کے موقع پر امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اپنے پیغام میں دنیا بھرکے مسلمانوں کو جہاں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کی، وہیں انہوں نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ عید الفطر رمضان المبارک کی تکمیل کی علامت ہے۔ اس دن کا آغاز نماز کی ادائیگی کے لیے مساجد اور کمیونٹی کے مراکز میں خاندانوں اور برادریوں کے اجتماع کے ساتھ ہوتا ہے اور ساتھ ہی عیدالفطر کی خوشیاں دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ مل کر منائی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی عید کی اپنی منفرد روایات ہیں۔ اس موقع پر ہمیں ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے جو جنگ، تشدد یا ظلم و ستم کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی جو بائیڈن نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج دنیا بھر میں میں دیکھ رہا ہوں کہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد ہو رہا ہے، کسی کو بھی کسی کی مذہبی پہچان کی بنیاد پر بھید بھاؤ اور ظلم و تشدد نہیں کرنا چاہیے، مسلمان ہمارے ملک کو ہر دن مضبوط بنا رہے ہیں لیکن انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اسلامو فوبیا کے ذریعے بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
دراصل بائیڈن کے مذکورہ الفاظ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلمانوں پر ہو رہے اسلامو فوبیا کے نام پر ظلم و تشدد کی کہانی بیان کررہے ہیں، یہ الفاظ ان کے دل سے نکلے ہیں اور دل سے نکلنے والی بات ہمیشہ دل پہ اثر کرتی ہے بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS