اردو کی درسی کتاب”درخشاں“ایک تجزیہ

0

اردو کی درسی کتاب”درخشاں“ایک تجزیہ

ڈاکٹر ایم عارف

کالی باغ۔بتیا

مغربی چمپارن بہار۔انڈیا

رابطہ:7250283933

بہار اسٹیٹ ٹکسٹ بک پبلشنگ کارپوریشن لمیٹیڈ‘ پٹنہ کے تعاون سے پورے صوبہ بہار کے لئے محکمہ فروغ

انسانی وسائل حکومت بہار سے منظور شدہ اردو کی نویں اور دسویں جماعت کی درسی کتاب”درخشاں“اول اور دوم ہے۔یہ سچ ہے کہ کسی ملک اور اس کے شہریوں کا مستقبل اس کے نظام تعلیم پر منحصر ہوتا ہے۔اور نصاب تعلیم کی روح اس کو جلا بخشتی ہے۔یہ وہ تعلیمی نصاب ہے جس پر نو نہالان چمن ہی نہیں بلکہ دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق نئی نسل کو تیار کرنے کی ذمہ داری ہے۔نصاب بچوں اور طالب علموں کے لئے بہترین تربیت گاہ اور نئی نسل کی ذہنی تربیت کا آلہ کار بھی ہے۔

درسی کتب کی ترتیب میں نہ صرف کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ اردو ادب کے مختلف ادوار کے مصنفین کی تخلیقات،مواد،موضوعات انتخاب،ماہرین مضامین،ماہرین لسانیات اور ماہرین درسیات،مرتبین کا نام،اور پورا اردو ادب کے اصناف جگہ یا تیں بلکہ نصاب کی ترتیب میں کوشش اس بات کی بھی ہونی چاہئے تھی کہ نہم دہم درجہ کے بچوں کی ذہن سازی،کردار سازی ہو۔اس کے لئے سبق آموز،نصیحت آموز،فرض شناسی،احساس ذمہ داری،صبرو تحمل،ہمت و شجاعت،مستعدی و جفاکشی اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ اور ہمت پیدا ہو۔اپنے جائز مقاصد کو پانے کے لیے سب کچھ کھونے کا،ہر چیز قربانی کر دینے کا ولولہ،تدبیر،جذبات و خواہشات اور ہیجانات پر قابوپانے والے مضامین،انشائیے،افسانے،ناول،ڈرامہ،طنزومزاح،مقالے، سفرنامہ،خود نوشت،خاکہ،خطبہ،نظم،غزل،قصیدہ،رباعی،مرثیہ مثنوی،قطعہ،گیت،اور دوہے وغیرہ داخل نصاب ہوں جن سے طلبہ کو کچھ سیکھنے اور مستقبل کے خوابوں کی شرمندہ تعبیر کرنے کی ہمت و جرأت پیدا ہو،ملک کو کچھ دیں،ملک سے کچھ لینے کی امید نہ کریں۔

اردو کی درسی کتاب”درخشاں“اول درجہ نہم کے حصہ نثر میں سید محمد حسنین صاحب کا انشائیہ”ہیرو“ہے مرتبین حضرات نہم درجہ کے طلباء وطالبات کو کون سا ہیرو بنانا چاہتے ہیں؟قلمی ہیرو،قومی ہیرو،کلاس کا ہیرو،بازار کا ہیرو،معشوقوں کا ہیرو اور پڑھائی میں زیرو بنانے کا خیال تو نہیں؟کرشن چندر کا شاہکار افسانہ”پورے چاند کی رات“ایک لافانی محبت کی داستان ہے۔جو بہت خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے،دلکش منظر کشی قاری کو بے قابو کردیتی ہے۔خوابوں اور خیالوں کی دنیا کا سیر کرادیتی ہے۔انسانی نفسیات انگڑائی لینے لگتا ہے۔طرح طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں اور قاری خود بے راہ روی کا ذہنی طور پر شکار ہو جاتا ہے۔اس طرح کی چیزوں کو مرتب کرکے ہم اپنے بچوں میں ادب کے کس طرح کے رجحانات پیدا کرنا چاہتے ہیں؟کیا بالغ ہونے سے پہلے بالغ النظر کا مادہ بیدار کرنا۔جوانی سے پہلے حسینوں اور معشوقوں پر مرمٹنے کا حوصلہ پیدا کرنا یا آتش عشق میں تعلیم چھوڑ کر بے خطر چھلانگ لگانے کا ہنر سکھانا مقصود ہے۔؟

تیسرا افسانہ فرانسیسی زبان سے ترجمہ شدہ ہے۔جو”آخری سبق“ کے عنوان سے شامل نصاب ہے۔کیا اس طرح کے موضوع پر اردو زبان میں کوئی کہانی یا افسانہ نہیں۔؟یا نہم درجہ کے طلبہ کو فرانسیسی زبان سے اردو میں ترجمہ کرنا سکھانا مقصد ہے۔؟کیا ہماری اردو زبان وادب میں درس تدریس سے متعلق اس سے بہتر یا اس پایہ کی کوئی تخلیق نہیں۔؟

انگریزی کہانی”سکٹف اینڈ سکٹف کا اردو ترجمہ”باد پیما کی یہ دلربا کہانی“جو غیر ملکی زبان سے ترجمہ شدہ ہے جو سائنسی تحقیق سے تعلق رکھتا ہے۔کیا ہمارے یہاں سائنسی تحقیق پر کوئی اچھی کہانی یا مضمون نہیں۔؟جس کی وجہ سے مجبور ہوکر دیگر زبانوں کے ترجمہ پر انحصار کرنا پڑا۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم غیر ملکی زبانوں کو ترجمہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔لیکن اپنے گھر کے قابل قدر اور قابل قبول چیزوں کو تلاش کرنا نہیں چاہتے۔؟

درجہ نہم کے طلباوطالبات کو ”مغربی انشائیے“پڑھانے کی ضرورت کیوں پڑگئی۔؟زیر نصاب مضمون اندر جیت لال کا ترجمہ ”مغربی انشائیے“ہے اور سوال اردو انشائیہ پر کیوں۔؟چہ معنی دارد۔؟

درجہ دہم کی درسی کتاب کا نام بھی”درخشاں“دوم ہے۔آغاز میں شبنم کمالی کا حمدیہ کلام پیش کیا گیا ہے۔اس کے بعدمشقی سوالات دئے گئے ہیں۔جن میں شبنم کمالی کا انتقال کب ہوا۔؟انتقال ہوا بھی ہے یا نہیں۔؟اس کا جواب کون بتائے گا۔؟حمد سے پہلے شاعر کا جو تعارف ہے۔اس میں پیدائش تو درج ہے مگر موت نہیں۔؟اس کا جواب نصابی کتاب کے کس صفحہ پر ملے گا۔؟

حصہ نثر میں صنف افسانہ میں چار افسانے ہیں۔سہیل عظیم آبادی کا”بھابھی جان“سید محسن کا”فرار“ڈاکٹر قمر جہاں کا”کٹی ہوئی شاخ اور نگار عظیم کا”آشیانہ“ہے۔ذرا مشقی سوالات کو دیکھیں۔سہیل عظیم آبادی کے افسانوں کے پہلے مجموعہ کا نام کیا تھا۔“؟”وہ کس سال شائع ہوا تھا۔“؟سہیل عظیم آبادی اردو کے کس افسانہ نگار سے بہت زیادہ متاثر تھے اور کیوں۔“؟ان سوالات کے جواب زیر نصاب کس حصہ اور صفحہ پر ہے۔؟سہیل عظیم آبادی کے ایک صفحہ کی تعارف میں بھی اس کا جواب نہیں۔؟یہ سوال استاد حضرات کے لئے ہے یا شاگرد کے لئے۔؟جواب کہاں سے نقل کریں۔؟”سوال قمر جہاں کے افسانوں کے موضوعات پر روشنی ڈالئے۔“؟کیا یہ ممکن ہے کہ قمر جہاں کے ایک افسانہ”کٹی ہوئی شاخ“کے مطالعہ سے ان کے پورے افسانوں کے موضوعات کا سراغ لگایا جا سکے۔؟سوال ”مہاجر ادب کی اصلاح سے آپ کیا سمجھتے ہیں۔“؟جن طلبا و طالبات کو اصناف ادب سے واقفیت نہیں وہ رجحان ادب اور مہاجر ادب کو کیا جانیں۔؟سوال نگار عظیم کی افسانوی خصوصیات بیان کیجئے۔؟کیا زیر غور افسانہ ”آشیانہ“کے مطالعہ سے نگار عظیم کی افسانوی خصوصیات پر روشنی ڈالا جا سکتا ہے؟کیا سوالات کو معیاری بنانے کی فکر میں طلباکے ذہنی معیار بھول گئے۔؟کیا یہ بھی بھول بیٹھے کہ کس درجہ کا سوال تیار کر رہے ہیں۔

صنف مضمون میں۔”عالمی حدت“ماخوذ۔ ”ریا“سر سید احمد خان۔ ”ادب کی پہچان“ڈاکٹر عبد المغنی۔ ”ہندوستانی آئین کے معمار“ڈاکٹر بھیم راؤامبیڈکر۔ ”اردو ڈرامہ نگاری اور آغا حشر“پروفیسر لطف الرحمن۔ ”آریہ بھٹ اور تریکنا“ماخوذ۔ان مضامین کے مشقی سوالات پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔

ڈاکٹر عبد المغنی کی تنقید نگاری پر تفصیلی روشنی ڈالئے۔“؟کہاں سے۔؟”اردو ادب میں تنقیدی روایات کا جائزہ لیجئے۔؟کس نصابی کتاب سے؟لطف الرحمن کی تنقیدنگاری پر ایک مضمون لکھئے“؟یہ کس کلاس کا سوال ہے۔؟”اردو میں تنقید کے آغا ز وارتقاء پر روشنی ڈالئے؟“کس کتاب سے۔؟زیر نصاب تنقید پر کوئی مضمون نہیں پھر بھی فن تنقید پر سوال کیوں۔؟

ڈاکٹر عبد المغنی اور لطف الرحمن کے ایک ایک مضمون پیش نظر ہے۔وہ بھی عبد المغنی اور لطف الرحمن پر نہیں۔لیکن درجہ دہم کے طلباء کو لطف الرحمن کی تنقید نگاری اور ڈاکٹر عبد المغنی کی تنقید نگاری پر تفصیلی روشنی ڈالنا ہے۔کہاں سے اور کس کتاب سے دونوں شخصیات پر مواد حاصل ہو سکتا ہے۔؟اس کی بھی نشان دہی سوال کے نتیجے کر دینا چاہئے۔

صنف ناول۔ میں ڈپٹی نذیر احمد کی ناول کا اقتباس زیر نصاب ہے۔مشقی سوالات ملاحظہ فرمائیں۔سر سید کے عناصر خمسہ کی حیثیت سے نذیر احمد کی خدمات پر روشنی ڈالئے۔؟نذیر احمد کی ناول نگاری کا جائزہ لیجئے۔؟

پہلے مرتبین حضرات یہ تو بتائیں کہ نصاب میں شامل ناول کا اقتباس ہے یا نذیر احمد کی پوری ناول۔؟

فن مکتوب نگاری میں ”سید شاہ کرامت حسین کرامت ہمدانی کے نام“اسد اللہ خاں غالب کا خط۔ ”اپنی بیٹی صغری کے نام”عبد الغفور شہباز کا خط۔”مولوی سید مقبول احمد صمدانی کے نام“مہدی افادی کا خط ہے۔لیکن مشقی سوالات غیر سنجیدہ ہے۔؟یہاں بھی گڑبڑہے۔”غالب نے کتنے خطوط لکھے“؟اس کا جواب مرحوم غالب کو بھی معلوم نہیں۔؟یہ تحقیق طلب ہے اور اب بھی تحقیق جاری ہے۔سوال”غالب کے خطوط سے اردو نثری کو کیا فائدہ پہچا۔“؟یہ کس کلاس کا سوال ہے۔؟آپ خود فیصلہ کیجئے۔؟میٹرک کا۔؟آئی اے کا۔؟بی اے آنرس کا۔؟یا ایم اے اردوکا۔؟سوال”غالب کے علاوہ کن قلم کاروں کے مکاتیب کتابی شکل میں شائع ہوئے۔؟نصاب کے کس حصے میں اور کس صفحہ پر اس کا جواب ہے۔؟ مرتبین پہلے یہ تو بتلائیں۔؟سوال”مہدی افادی کی مکتوب نگاری کا فنی جائزہ لیجئے۔؟”مہدی افادی کے مضامین کی خصوصیات بیان کیجئے۔؟مہدی افادی کا ایک خط شامل نصاب ہے۔مکتوب کا مجموعہ نہیں۔؟فنی جائزہ کہاں سے لیا جائے۔؟کوئی اور کتاب تیار کی جائے جن سے جواب لکھنے میں مدد ملے۔

انٹرویو بیدی سے اور سوال”بہار کے عہد حاضر کے چند ممتاز افسانہ نگاروں کے نام لکھئے۔؟کیا راجندرسنگھ بیدی سے انٹرویو لینے والوں نے بہار کے چندممتاز افسانہ نگاروں پر سوال کیا تھا۔؟اس کا جواب انٹرویو کے کس سوال میں ہے۔؟

حصہ شاعری میں صنف نظم میں ”مناظر فطرت“شاعر چکبست۔ ”انڈیا گیٹ“ جگن ناتھ آزاد۔”ہم نوجوان ہیں“

3،پرویزشاہی۔”بجلی کا کھمبا“ندا فاضلی۔ ”نظم “ بہت آسان تھی پہلے“ ندا فاضلی۔”کھڑا ڈنر“سید محمد جعفری۔ مشقی سوالات بھی پڑھ لیجئے اور نصابی کتاب میں جواب تلاش کیجئے۔”چکبست کی نظم نگاری کا فنی جائزہ لیجئے۔؟”جگن ناتھ آزاد کی نظم نگاری کا جائزہ لیجئے۔؟میٹرک کے طلبا و طالبات چکبست اور جگن ناتھ آزاد کی مجموعہ نظم نگاری کو نہیں بلکہ صرف ایک نظم کو ہی پڑھا ہے۔جائزہ لیں تو کہاں سے لیے۔؟”جگن ناتھ آزاد کی تین شعری مجموعوں کا نام لکھئے۔“؟کہاں سے۔؟زیر نصاب شاعر کے مختصر تعارف میں بھی نہیں ہے۔سوال”پرویز شاہدی کی تصنیفات پر مختصر روشنی ڈالئے۔؟“تصنیفات کہاں ہیں۔؟”پرویز شاہدی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیجئے۔؟“تنقیدکیا ہوتی ہے پہلے دہم کے طلبا کو یہ تو بتا دیجئے۔؟”اردو کی مزاحیہ طنزیہ شاعری سے متعلق آپ جو جانتے ہیں لکھئے۔؟“درجہ دہم کے طالب علموں کو پہلے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کے متعلق بتا تودیجئے۔؟

صنف مرثیہ۔ غالب کو غزل کی آبرو کہا جاتا ہے اور میرببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر کو مرثیہ گوئی کی تاریخ میں غیر فانی قرار دیا جاتا ہے۔لیکن زیر نصاب میں شامل ”عارف کی موت پر“جو غالب نے مرثیہ لکھا جس کی وجہ سے بحیثیت مرثیہ کو غالب نظر آئیں۔اور مرثیہ گوئی کے آفتاب و ماہتاب انیس و دبیر دہم درجہ کے نصاب کے صنف مرثیہ گوئی سے گم ہوگئے۔؟آخر کیوں۔؟

صنف مثنوی میں ”زہر عشق“ ]اقتباس[ شوق لکھنوی ”گلزار نسیم“کے] اقتباس[ دیا شنکر نسیم ”جذبہ عشق“کے] اقتباس[ غلام ہمدانی مصحفی درجہ دہم کے طلبا و طالبات کے دل و دماغ میں بہار عشق، فریب عشق،شوق عشق،جذبہ عشق یعنی سراپا عشق ہی عشق کا شوق اور الفت و چاہت کا تیر دل میں ابھی سے پیوست کرکے نو خیز ذہنوں میں شعوری بیداری کا کون سا ثبوت پیش کیا۔؟اردو ادب میں داستان عشق،ناکامی عشق،فراق عشق اور جذبہ عشق کے سوا کچھ ہے بھی یا نہیں۔؟اردو نصاب میں محض چیزیں ایسی ہیں کہ یقین جانئے آدمی اپنی بیوی کے سامنے پڑھتے ہوئے شرماجائے۔ایسی صورت میں کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ استاد اپنے بیٹا اور بیٹیوں جیسی طلبا اور طلبات کے روبرو پڑھے۔؟

صنف غزل۔ میں مبارک عظیم آبادی کی دو غزلیں۔ احمد فراز کی دو غزلیں۔حسن نعیم کی دو غزلیں۔پروین شاکر کی دو غزلیں۔عرفات صدیقی کی دو غزلیں۔نصاب میں شامل ہیں۔اب ذرا مشقی سوالات پر بھی نگاہ کرم فرمائیں۔”اردو غزل کی روایت میں آزاد غزل کا تجربہ کیسا رہا۔؟یہ کس کلاس کا سوال ہے۔؟مرتبین کامیاب اور زیادہ تجربہ کار پروفیسر تو نہیں۔؟دررجہ دہم کے طلبا کے لیے یہ ”آزاد غزل“اور وہ”قید غزل“کیا معنی۔؟

صنف”دوہا“میں ظفر گورکھپوری کا ”دوہا“ ہے اور صنف گیت میں سلام مچھلی شہری کا گیت بھی شامل نصاب ہے۔

مرتبین حضرات موضوع،مواد،ہیئت و ماہیت،کلاسیکیت،جدید و قدیم شعراء و ادباء کی نمائندگی اور زیادہ سے زیادہ اصناف ادب کو شامل کرنے کی کوشش میں طلبا و طالبات کے طبعی اور ذہنی عمر کا بھی خیال رکھنا بھول گئے۔سوال بنانے میں اپنے معیار کا تو خیال رکھا لیکن طلبا کا معیار بھول گئے۔یہاں تک کہ یہ بھی بھول بیٹھے کہ کس کلاس کا سوال بنا رہے ہیں۔؟اسکول کا۔؟انٹر کونسل کا۔؟یا یونیورسیٹی کا۔؟ نئی نسل کے ابھرتے طلبا پر تاریخ ادب اردواصناف کی ساری ذمہ داری ڈال کر خود اردو زبان و ادب سے فرار کا راستہ ڈھونڈنے لگے۔نصا ب میں شامل مواد،موضوعات،کتاب کا اقتباس،کتاب سے منتخب اشعار،اصناف ادب اور قلم کار و شاعر و ادیب و مصنف کی حیات و خدمات پر سوال دیا جائے لیکن اس کے جواب پر ضرور روشنی ڈالا جائے تاکہ میٹرک کے طلبا و طالبات نصابی کا مطالعہ کرکے خود سوال کا جواب تلاش کرسکیں۔یہ درسی کتاب تنوع اصناف کے لحاظ سے مؤلف کا قابل قدر کا رنامہ ہے۔لیکن مواد اور موضوعات کے لحاظ سے ناکامیاب تجربہ کاری کا ثبوت ہے۔

نو خیز طالب علموں کی تعمیر،کرداری سازی،اخلاق سازی، ذہن سازی کی خاطر نصاب کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے مستقبل کو بنانے اور سنوارنے میں نصاب کا اہم رول رہا ہے۔ ملک کو تعلیم یافتہ،تہذیب یافتہ بنانے کی ذمہ داری بھی نصاب پر منحصر ہے۔ اس لیے مشورتا عرض ہے کہ طلبا و طالبات کے معیار ذہن کے مطابق نصاب تیار کیا جائے۔جس سے اخلاقیات و روحانیت کو فروغ دینے والی مثبت باتیں سامنے آئیں۔جن سے ذہن پستی سے بلندی کی طرف جائیں۔ بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی حاصل ہو اور دل و دماغ پر اچھا اور گہرا نقوش مرتسم ہوں۔

ختم شد۔

برائے اشاعت غیر مطبوعہ

Dr M.Arif

#szzzszq Bagh,Bettiah-845438

West champaran-Bihar, India

Mob-7250283933

Email: [email protected]

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS