آسام این آرسی پر ابہام

0

نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز ایک بار پھر شمال مشرقی خطہ میں پیچیدگیوں کا سبب بن گیا ہے۔ 31؍اگست 2019کو شائع ہونے والی آسام کی این آر سی فہرست کو فورینزٹریبونل(ایف ٹی) نے حتمی قرار دے دیا ہے۔ ہوسکتا ہے اگلے مرحلہ میں رجسٹرارجنرل آف انڈیا اسے نوٹی فائی بھی کردے۔لیکن مرکز کی مودی حکومت نے اس معاملے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے ابہام اور پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔
آسام میںاس عمل کو شروع کرنے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ 25؍مارچ 1971 سے ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے آغاز کے بعد مشرقی پاکستان سے لاکھوں افراد غیر قانونی طور پر آسام میں آگئے ہیں۔اس لیے آسام کی پوری آبادی کا رجسٹریشن کیاجائے اور مقامی افراد کو غیرقانونی طور پر مقیم افراد سے الگ کیا جائے۔ اس کیلئے مقامی افراد کو اپنی شہریت ثابت کرنے کیلئے اپنے آباو اجداد کے شناختی دستاویزات پیش کرنے ہوں گے اور جو لوگ ثابت نہیں کر پائیں گے انہیں غیرملکی قرار دے دیا جائے گا۔ اس طویل عمل کے بعد 31؍اگست 2019 کو ایک فہرست شائع کی گئی جس میں 3کروڑ 10لاکھ سے زائد افراد شامل کیے گئے۔
آسام میں این آر سی کے نفاذ کے پس پردہ بی جے پی مسلمانوں کی ایک بھاری تعداد کو غیر ملکی قرار دینے والی تھی لیکن فہرست جب سامنے آئی تو اس کے اس منصوبے پر پانی پھر گیا۔ اس فہرست میں آسام کے 12لاکھ ہندوئوں کوہی شامل نہیں کیاگیا جب کہ مسلمانوں کی تعداد فقط4لاکھ رہی۔ووٹر شناختی کارڈ اور دوسرے دستاویزات رہنے کے باوجود ہندوستانی شہریوں کی اس بھاری تعداد کو درانداز ٹھہراتے ہوئے اسٹیٹ لیس قرار دے دیا گیا۔اس فیصلے کی وجہ سے پورے ملک میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
اس فہرست میں غلطیوں اور نام چھوٹ جانے کی ہزاروں شکایتیں سامنے آئیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی نے ان غلطیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس وقت کی بی جے پی حکومت میں وزیرا ورآسام کے موجودہ وزیراعلیٰ ہیمنت سرما اس فہرست پر اعتراض کرنے سے سب سے آگے تھے۔بی جے پی نے گزشتہ سال آسام میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے دوران اسے اپنے انتخابی منشور کا بھی حصہ بنایا اور آسام کے لوگوں سے ’ صحیح این آر سی ‘ لانے کاوعدہ کیا۔بی جے پی کی ریاستی حکومت نے بھی فہرست میں تضادات کا الزام لگاتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا۔
ہر چند کہ عدالت نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے لیکن اس دوران ایف ٹی کی جانب سے مسودہ فہرست کو حتمی شکل دینے سے شمال مشرقی ریاستوں میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ ایف ٹی کی دلیل ہے کہ یہ فہرست سپریم کورٹ کی براہ راست نگرانی میں قانون کے مطابق مرتب کی گئی ہے اور یہ حتمی فہرست ہے، اس میں کسی تبدیلی، ترمیم یا اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایف ٹی کا یہ موقف اب بی جے پی کیلئے ہزیمت کا سامان لے کرآیا ہے۔ اسٹیٹ لیس کیے گئے افراد سے صحیح این آر سی لانے کا وعدہ کرکے ہی آسام میں بی جے پی دوسری بار اقتدارمیں آئی اور ہر جلسہ اور تقریر میں بی جے پی کے لیڈران یہ وعدہ اور دعویٰ کرتے رہے کہ این آر سی کی غلطیاں درست کردی جائیں گی۔لیکن آج دو برسوں کے بعد ایف ٹی کی دلیل نے 19لاکھ افراد میں ایک بارپھر نئے سرے سے خوف وہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔یہ لوگ غیر یقینی کی زندگی گزاررہے ہیں کہ حکومت نہ جانے کب انہیں ملک بدر کردے۔
ایک طرف بی جے پی پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ان مذہبی اقلیتوں کوہندوستان کی شہریت دینا چاہتی ہے جنہیں اپنے ملک میں کسی وجہ سے مشکل کا سامنا ہے لیکن اب اپنے ہی ملک میں رہنے والے12لاکھ ہندوئوں اور2لاکھ بنگالیوں کو مہاجر ہونے اور ملک بدری کے خطرات کا سامنادرپیش ہوگیا ہے۔یہ خطرات صرف آسام کے19لاکھ لوگوں تک ہی محدود نہیں رہنے والے ہیں بلکہ آنے والے دنوں میں پورے ملک پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ مذہبی منافرت اور مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کا تعصب ملک کی سالمیت اور استحکام کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر شمال مشرق کی ریاستیں منی پور سے لے کر ناگالینڈتک میں،جہاں گاہے گاہے علیحدگی پسندی کی تحریکیں سر اٹھاتی رہتی ہیں، سنگین سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔اس لیے اب مرکز کی مودی حکومت اس معاملے میں اپنی خاموشی توڑے اور آسا م کے این آر سی مسودہ پرفورینزٹریبونل کے فیصلے سے پیدا ہونے والا ا بہام جلد از جلد دور کرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS