آخر سیاست میں کیسے کنٹرول کیا جائے کالا دھن؟

0
image:quora.com

پنکج چترویدی

گزشتہ چند دنوں سے ملکی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے بھلے ہی حکومتیں بن اور بگڑ رہی ہوں لیکن اس سے جمہوریت کی اصل روح پر حملہ تو ہوا ہی ہے۔ ایک تو سپریم کورٹ نے الیکشن بانڈس سے چندہ لینے کے عمل میں شفافیت کی کمی پائی اور اسے غیر قانونی قرار دے دیا۔ پھر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ڈیٹاکا تجزیہ کرنے کے بعد ایک نیوز پورٹل نے بتایا کہ کس طرح سیاسی عطیات میں حکومت اور حکومت کی تفتیشی ایجنسیوں کی سازباز ہوتی ہے۔ اسی دوران چنڈی گڑھ میونسپل الیکشن میں 36 میں سے 8 ووٹ لوٹے گئے، وہ بھی کیمرے کے سامنے اور سپریم کورٹ نے انتخابی نتائج میں مداخلت کی۔ حال ہی میں منعقدہ راجیہ سبھا انتخابات کے دوران بھلے ہی بات کرناٹک کی ہو یا پھر بہار، اترپردیش یا ہماچل پردیش کی، ایک بات واضح ہے کہ منصوبہ بند طریقے سے عام لوگوں کو یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ اخلاقیات اور نظریات کی انتہائی گراوٹ بہت اچھی بات ہے، کیونکہ میڈیا میں متاثرہ یا جن کے لوگوں نے پالا بدلا، انہیں نکما اور وہیں غیراخلاقیات کو فروغ دینے والے کو فاتح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہے کہ دل بدل قانون اب ردی کا ٹکڑا ہے اور اس کا غلط استعمال صرف طاقتور کو اور زیادہ طاقت دینے کے لیے ہے۔ تیسری بات اب یہ مان لیجیے کہ جمہوریت کا مطلب ہے-جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔۔۔ جس ریاست میں جس کی طاقت ہے وہ ووٹ لوٹ لے گا۔ عام لوگ جو ووٹ دیتے ہیں وہ لیڈر کے لیے لاکھوں کی کمائی کا محض ذریعہ ہیں۔
ہندوستان میں عوامی جمہوریہ کا خواب دیکھنے والوں کی رائے تھی کہ ’’ووٹ کے لیے ذاتی اپیل کرنا پارلیمانی جمہوریت اور اجتماعی مفاد کے جذبے کے منافی ہے۔ ووٹ مانگنے کا کام صرف عوامی جلسوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔‘‘ اگر کوئی بھی حکومت جمہوریت کے اس بنیادی جذبے کو زندہ رکھنے کے لیے انتخابی عمل میں انقلابی تبدیلیاں لاتی ہے تو عام آدمی خود کو جمہوریت کے قریب تر سمجھے گا۔ درحقیقت یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ انتخابات بے حد خرچیلے ہوگئے ہیں۔ کسی بھی پارٹی سے ٹکٹ لینا ہو یا انتخابی تشہیر کے لیے حامیوں کو میدان میں بھیجنا یا پھر ووٹروں کو لبھانا، راغب کرنا، سب کچھ صرف پیسوں پر منحصر ہے اور الیکشن کمیشن کے ذریعے مقررہ حد کے اندر یہ تمام اخراجات ممکن نہیں ہوتے۔ اوپر کے خرچوں کے لیے اوپر سے ہی کمائی ہوتی ہے اور اس بداخلاقی، بدعنوانی اور بددیانتی کو فاتح کی اخلاقیات کا جامہ پہنا دیا جاتا ہے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ایک عوام دوست اور جمہوری طرز حکمرانی کے لیے انتخابی نظام میں انقلابی تبدیلی کی جائے اور اس کا آغاز مالیاتی نظام سے ہی کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی لیکن المیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے ان میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ وی پی سنگھ کی سربراہی والی نیشنل فرنٹ حکومت میں وزیر قانون دنیش گوسوامی کی قیادت میں 1990 میں تشکیل کردہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تجویز تھی کہ قومی سطح پر تسلیم شدہ پارٹیوں کو حکومت کی جانب سے گاڑیاں، ایندھن، رائے دہندگان کی فہرستیں، لاؤڈ اسپیکر وغیرہ مہیا کروائے جانے چاہئیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنروں کو نہ صرف حکومت کے تحت کسی تقرری بلکہ گورنر کے عہدے سمیت کسی دوسرے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی کسی بھی شخص کو دو سے زیادہ انتخابی حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دینے، آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے پر سیکورٹی ڈپازٹ بڑھانے کی بات بھی اس رپورٹ میں تھی۔
ان سفارشات میں سے صرف ای وی ایم سے الیکشن کو نافذ کیا گیا، باقی سفارشات کہیں ٹھنڈے بستے میں پڑی ہیں۔ ویسے بھی آج کے بدعنوان سیاسی ماحول میں کمیٹی کی مثالی سفارشات بالکل بھی متعلقہ نہیں ہیں۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ لیڈر صرف سرکاری خرچ پر ہی الیکشن لڑیں گے یا سرکاری پیسہ ایمانداری سے خرچ کریں گے۔ 1984 میں بھی انتخابی اخراجات میں ترمیم کے لیے ایک غیر سرکاری بل لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا لیکن نتیجہ وہی ’ڈھاک کے تین پات‘ رہا۔
1962 میں ممبر پارلیمنٹ کے سنتھانم کی صدارت میں چار ممبران پارلیمنٹ اور دو سینئر افسران کی ایک کمیٹی بدعنوانی کے مختلف پہلوؤں کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ اگرچہ اس کمیٹی کے دائرۂ کار میں سیاسی لوگ نہیں تھے، پھر بھی 1964 میں آئی اس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کا چندہ جمع کرنے کا طریقہ الیکشن کے دوران اور بعد میں بدعنوانی کو بے حساب بڑھاوا دیتا ہے۔ 1970 میں براہ راست ٹیکس کے لیے تشکیل دی گئی وانچو کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انتخابات میں اندھا دھند خرچ کالے دھن کو فروغ دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں ہر ایک پارٹی کو الیکشن لڑنے کے لیے سرکاری گرانٹ دینے اور ہر پارٹی کے اکاؤنٹ کا باقاعدہ آڈٹ کرانے کی تجاویز تھیں۔1980 میں راجا چلیہ کمیٹی نے بھی تقریباً یہی سفارشات کی تھیں۔ یہ تمام دستاویزات اب بھولی بسری کہانی بن چکی ہیں۔
اگست-98 میں ایک پی آئی ایل پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہدایات دی تھیں کہ امیدواروں کے اخراجات میں اس کی پارٹی کے اخراجات کو بھی شامل کیا جائے۔ حکم نامے میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا کہ سیاسی پارٹیاں اپنے لین دین کے کھاتوں کا باقاعدگی سے آڈٹ نہیں کراتی ہیں۔ عدالت نے ایسی پارٹیوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بھی ہدایات دی تھیں لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔
اصل بات تو یہ ہے کہ اب الیکشن عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ اس سے پیدا ہونے والے نمائندے بھی عوام سے کوسوں دور ہیں۔ اسی لیے اسے معاشرے سے کوئی سروکار نہیں ہے اور عوام بھی ووٹ دینے کے باوجود اسے اپنا ’نمائندہ‘ نہیں مانتے۔ گزرتے دنوں کے ساتھ بڑھتی یہی دوری جمہوریت کو ایک نئی قسم کی بادشاہت میں تبدیل کر رہی ہے۔ انتخابی عمل میں شفافیت اور اخراجات میں کمی لاناآج جمہوریت کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS