ایس بی آئی سیاسی شعبدہ بازوں کا کھلونہ نہ بنے: عبدالماجد نظامی

0
ایس بی آئی سیاسی شعبدہ بازوں کا کھلونہ نہ بنے: عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے 15فروری2024کو ایک نہایت اہم فیصلہ صادر کیا تھا۔ اس فیصلہ کا تعلق الیکٹورل بانڈ سے تھا۔ سپریم کورٹ نے 2018میں لائی گئی الیکٹورل بانڈ اسکیم کو غیر دستوری قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہADRاور دیگر اداروں کی درخواست پر سپریم کورٹ نے صادر کیا تھا۔ اس فیصلہ میں دیے گئے چند نہایت اہم احکامات تھے۔ کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اس بانڈ کو جاری کرنے والا بینک فوری طور پر الیکٹورل بانڈ جاری کرنا بند کرے۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے سب سے بڑے بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو یہ ہدایت دی تھی کہ 12اپریل2019 سے جب کورٹ نے اپنا عارضی حکم صادر کیا تھا،آج تک بانڈ سے متعلق ساری تفصیلات الیکشن کمیشن آف انڈیا کے حوالہ کرے۔ بینک کو جن تفصیلات کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا، ان میں ہر بانڈ کے خریدے جانے کی تاریخ، بانڈ خریدنے والے کا نام اور کتنی مالیت کا بانڈ خریدا گیا، سب شامل تھے۔ کورٹ نے واضح الفاظ میں ایس بی آئی کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ12اپریل،2019 سے لے کر آج تک جن جن سیاسی جماعتوں کو الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ چندہ ملا ہے، ان کی تفصیلات بھی الیکشن کمیشن کے حوالے کرنی ہوں گی۔بینک پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی تھی کہ وہ لازمی طور پر ہر الیکٹورل بانڈ کی تفصیل، بانڈ خریدنے والی سیاسی پارٹیوں کے نام، بانڈ کو خریدنے کے بعد انہیں پیسہ میں منتقل کروانے والی تاریخ اور الیکٹورل بانڈ کی مالیت وغیرہ تمام اشیاء کو پیش کرے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو کہا گیا تھا کہ کورٹ کے فیصلہ کے صادر ہونے کے تین ہفتے بعد یعنی 6مارچ2024تک یہ ساری معلومات الیکشن کمیشن آف انڈیا کے حوالے کرنی ہوں گی۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ذریعہ فراہم کردہ تمام معلومات کو ایک ہفتہ کے اندر یعنی13مارچ 2024تک وہ اپنی آفیشیل ویب سائٹ پر شائع کر دے۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بات بھی وضاحت سے کہی تھی کہ جن الیکٹورل بانڈس کی میعاد 15دن کے اندر باقی ہے اور کسی پارٹی نے اب تک ان کو خریدا نہیں ہے تو ایسے بانڈس کو اس بینک تک لوٹانا ہوگا جس نے اس کو جاری کیا تھا۔ یہ فیصلہ ملک کی تاریخ میں ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس سے ملک کے عام شہری کا اعتماد نہ صرف عدالت پر بحال ہوا ہے بلکہ اس ملک کے سیاسی مستقبل کے تئیں بھی یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔ تشدد پسند قومیت و وطنیت پر مبنی سیاسی نظریہ کے غلبہ کی وجہ سے جہاں ایک ایک کرکے ملک کے تمام اہم ادارے اپنی مصداقیت اور معتبریت کھوتے جا رہے ہیں اور عام شہری بے بس محسوس کرتا ہے، وہاں سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلہ سے ایک بار پھر یہ امید دلائی ہے کہ دستور کی روح کی حفاظت کرنے کے معاملہ میں وہ کوتاہی سے کام نہیں لے گا۔ الیکٹورل بانڈ کی اسکیم کو عدالت عظمیٰ نے یہ کہہ کر غیر دستوری قرار دیا تھا کہ اس سے دستور میں شہریوں کو دی گئی جانکاری سے متعلق حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، ساتھ ہی اس سے ان کے بولنے کی آزادی پر بھی زد پڑتی ہے۔ ایسا اس لیے کہا گیا کیونکہ الیکٹورل بانڈ کی پوری اسکیم کا مقصد ہی یہ تھا کہ چندہ دینے والے افراد یا کمپنیوں اور بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کے درمیان اندرون خانہ جو ساٹھ گانٹھ ہوتی ہے، اس پر پردہ ڈالا جائے اور دونوں ایک دوسرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس سے انتخابی عمل کی شفافیت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں انتخاب کا پورا عمل ہی شک و شبہ کے دائرہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ایک جمہوری نظام میں عوام کو اس کا پورا حق ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کے بارے میں اور ان کے ذرائع آمدنی اور اخراجات کے تعلق سے پورے طور پر واقف ہوں، تاکہ ان کو معلوم رہے کہ وہ جس شخص یا پارٹی کو اپنا نمائندہ منتخب کر رہے ہیں، وہ شہری حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے اور سیاسی پارٹیوں کی آمدنی یا خرچ کی تفصیلات پیش نہیں کی جاتی ہیں تو یہ شبہ ہر ووٹر کے دماغ میں رہے گا کہ آخر یہ پیسے کہاں سے آتے ہیں اور کن بنیادوں پر بڑی بڑی کمپنیاں یا با اثر افراد ان سیاسی پارٹیوں کو چندے فراہم کراتے ہیں؟ ہمارے ملک میں سرکاریں ہمیشہ بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کا معاملہ کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ برتاؤ بے وجہ نہیں ہوتا ہے۔ انتخاب سے قبل صنعتی ادارے سیاسی پارٹیوں کی مدد پیسوں سے کرتے ہیں اور انتخاب میں کامیاب ہوکر اقتدار سنبھالنے کے بعد یہی سیاسی پارٹیاں صنعتی اداروں کے احسانات کا بدلہ اس طرح ادا کرتی ہیں کہ ان کے مفادات کو دھیان میں رکھ کر اقتصادی پالیسیاں طے کرتی ہیں جن کا سیدھا منفی اثر عام شہریوں پر پڑتا ہے۔ اب چونکہ اپریل- مئی2024کے اندر دوبارہ عام انتخابات ملک بھر میں ہوں گے، اس سے قبل ہی سپریم کورٹ نے ایس بی آئی کو چندہ دینے والے افراد اور اداروں کی تفصیلات پیش کرنے کو کہا ہے تاکہ پراسراریت کی جو دبیز چادر2018سے الیکٹورل بانڈ اسکیم پر پڑی ہوئی تھی، اس کو اٹھا دیا جائے تاکہ انتخاب کے عمل میں شفافیت و مصداقیت کی بحالی سے عام شہری کا اعتماد بحال ہو اور جمہوری نظام کو تقویت ملے۔ لیکن ایس بی آئی نے جان بوجھ کر6مارچ کی متعینہ تاریخ سے دو دن قبل ہی سپریم کورٹ میں یہ عرضی پیش کر دی کہ انہیں 30جون 2024 تک کا وقت دیا جائے تاکہ وہ الگ الگ فائلوں میں درج چندہ دینے والوں کی تفصیلات کو اکٹھا کرکے پیش کرسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ نہایت کمزور وجہ ہے کیونکہ ایس بی آئی کے پاس ساری تفصیلات ڈیجیٹل شکل میں موجود ہیں اور الیکٹورل بانڈ سے متعلق تفصیلات کو ٹریک کرنے کے لیے اس کے پاس ایک خاص قسم کا کوڈ بھی تیار ہے۔ ایسی صورت میں محض ایک سے دو دن کے اندر اسٹیٹ بینک آف انڈیا یہ ساری تفصیلات پیش کر سکتا ہے۔ اب اگر یہ ایسا نہیں کر رہا ہے تو اس کا مطلب سیاسی دباؤ اس کے اوپر موجود ہے اور اسی لیے سپریم کورٹ کے اتنے اہم فیصلہ کی معنویت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ بھلا30جون کو ان تفصیلات کو پیش کرنے کا کیا فائدہ ہوگا؟ تب تک تو عام انتخابات بھی مکمل ہوچکے ہوں گے اور نئی سرکار بھی تشکیل پا چکی ہوگی۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس تاخیر کا فائدہ بر سر اقتدار پارٹی کے علاوہ کسی کو نہیں ہوگا کیونکہ الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ حاصل شدہ چندوں کا سب سے بڑا حصہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی ملا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو تو برائے نام ہی چندہ ملا ہے۔ ایس بی آئی کو چاہیے کہ وہ سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے۔ اگر ایس بی آئی ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی کی پاداش میں اسے اس کی سخت سزا ملنی چاہیے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS