مغربی بنگال میں کمیشن کی تیاری

0

مغربی بنگال کے حالات تشدد اور مبینہ دہشت گردی متاثرہ جموں و کشمیرسے زیادہ خراب ہوں یا نہ ہوں لیکن اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ انتخابی تشدد کے معاملے میں مشرقی ہندوستان کی یہ ریاست ملک بھرمیں بدنام ہوچکی ہے۔کوئی ایسا انتخاب نہیں گزرتا ہے جس کے نتائج خون آلود نہ ہوتے ہوں۔ اس انتخابی تشدد کی وجہ کیا ہے، اس کا سراغ تو سیاسیات اور سماجیات کے ماہرین ہی لگاسکتے ہیں تاہم2024کے لوک سبھا انتخاب سے ہفتوں قبل الیکشن کمیشن مغربی بنگال میں جس طرح کے انتظامات اور اعلانات کررہا ہے، اس سے مغربی بنگال کی شبیہ ضرور متاثر ہورہی ہے۔
الیکشن کمیشن لوک سبھا انتخابات کیلئے مغربی بنگال میں مرکزی فورسز کی920 کمپنیاں تعینات کررہا ہے جو کہ ملک کی تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ ہے۔حتیٰ کہ سینٹرل فورسز کی اتنی بھاری تعداد دہشت گردی سے متاثرہ جموں و کشمیرکیلئے بھی نہیں طے کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر میں فقط635کمپنیاں ہی بھیجی جائیں گی۔ مائو نواز متاثرہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر،جھارکھنڈاور تشدد متاثرہ منی پور میں بھی بھیجی جانے والی فورسز کی تعداد 100 سے 300 کمپنیوں کے درمیان ہے۔ مغربی بنگال میں مرکزی فورسز کا قافلہ اترنا بھی شروع ہوگیا ہے۔ کمیشن کی ہدایت کے مطابق اسکولوں اورکالجوں میں پڑھائی بند کرکے ان کی رہائش کیلئے مختص کردیا گیا ہے۔بنگال پہنچنے والے نیم فوجی دستہ کے یہ جوان گشت میں بھی لگ گئے ہیں۔ پہاڑ سے میدان اور جنگل سے ساحل تک اسلحہ بردار جوانوں کے بوٹوں کی گونج سے کان جھنجھنا رہے ہیں،سنسنی اور دہشت محسوس رہی ہے۔
لاچاری یہ بھی ہے کہ اس دہشت اور سنسنی کے ذمہ داروں کے خلاف ممتا حکومت کوئی چارہ جوئی بھی نہیں کرسکتی ہے کیوں کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے قبل ہی جوانوں کی گشت کا فیصلہ آئینی طور پر خود مختار ادارہ الیکشن کمیشن نے کیا ہے، جو مغربی بنگال میں پرامن اور منصفانہ پولنگ کا ذمہ دار ہے۔دو دنوں قبل الیکشن کمیشن کی فل بنچ نے راجدھانی کولکاتا کے ایک پنچ ستارہ ہوٹل میں پریس کانفرنس کرکے باضابطہ طور پر اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ وہ انتخاب میں تشدد کو بالکل ہی برداشت نہیں کرے گا۔ تشدد روکنے کے ہر ممکنہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ انتخابات میں تشدد کے حوالے سے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے متنبہ کیا کہ ریاست میں آزادانہ اور پرامن پولنگ کی ذمہ داری ریاستی پولیس کو لینی چاہیے۔موصوف نے ممکنہ انتخابی تشدد کی جوابدہی کا بھی لگے ہاتھوں تعین کردیا اور کہا کہ اگر پولنگ کے دوران کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو اس کے ذمہ دارریاست کے ڈائریکٹر جنرل پولیس ہوں گے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن ریاست کے انتظامی حکام کے ساتھ جائزہ میٹنگ میںیہ انتباہ پہلے ہی دے چکا تھا کہ ووٹنگ سے پہلے اور ووٹنگ کے بعد تشدد کو روکنے کی ہرحال میں کوشش کرنی ہوگی۔ اگر بیوروکریسی غیر جانبدار نہیں رہی اور ضلعی انتظامیہ نے تشدد کے خلاف کارروائی نہیں کی تو الیکشن کمیشن کارروائی کرے گا۔
یہ اقدامات ممکن ہے قبل اور بعدازانتخاب تشدد روکنے میں معاون ہوں اور خون خرابہ کی روایت دوہرائی نہ جائے لیکن ان اقدامات کے اعلان سے یہ بھی پیغام مل رہاہے کہ مغربی بنگال میں انتخابی تشدد کو انتظامی مشنری کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اگرا نتظامیہ، بیوروکریسی کی حکمراں سیاسی جماعت کے ساتھ سازباز نہ ہو تو پولنگ پرامن ہوسکتی ہے۔یہ سچائی بھی ہے کہ انتظامی مشنری فعال رہنے کے باوجود مغربی بنگال میں ہر انتخاب قتل و غارت گری پر منتج ہوتا ہے۔ سابقہ پنچایت انتخاب میں 50سے زائد افراد کا قتل ہواتھا اور تشدد کے سیکڑوں ہولناک واقعات پیش آئے تھے۔اس سے قبل کے بھی انتخاب خون رنگ ہی تھے۔2003کے اسمبلی انتخاب میں پوری ریاست سے کم و بیش 73افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے صرف ایک ضلع مرشدآباد میںمہلوکین کی تعداد 45تھی۔ 2013میں ہوئے انتخاب کے دوران بنگال میں ہلاکتوں کی تعداد39رہی تھی۔
ایسے حالات میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ اور اقدامات بظاہر بنگال مخالف محسوس ہورہے ہیں لیکن پرامن انتخابات کیلئے یہ ضروری بھی ہیں۔ اگر مغربی بنگال کی ممتاحکومت نے بایاں محاذ کی ڈالی گئی انتخابی تشدد کی ہولناک روایت کو آگے نہیں بڑھایا ہوتا تو بھری بزم میں ریاست کے انتظامی حکام کی سبکی ہوتی اور نہ ہر پولنگ بوتھ پرفوجی جوانوں کی سنگین تنی ہوتی۔
جمہوریت میں انتخابات ایک تہوار کی طرح ہوتے ہیں جسے پورے معاشرے کو مل کرمنانا چاہیے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کی خاطر اس جمہوری تہوار کو خون آلود بنادیتی ہیں۔انتخابی قتل و خون کا یہ مکروہ سلسلہ اب ختم ہوجاناچاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS