افریقہ: کیوں ہے خانہ جنگی کی آماجگاہ

0

براعظم افریقہ دنیا کا ایک وسیع اور عریض ایسا براعظم ہے جس میں وسائل اورمسائل کی بھرمار ہے۔ وسائل کی وجہ سے مسائل ہیںاور دنیا کی تمام بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ اس مردم خیز اور معدنی وقدرتی وسائل سے مالامال اس خطے میں قبضہ جمایا جائے۔ وسائل کو اپنے قبضے میں لیا جائے اوریہ کام افریقہ کے مختلف ملکوںمیں آپسی تصادم کو بھڑکاکر اور قبائلی، علاقائی اور مذہبی وابستگیوںکو اچھال کر بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ 50سال کی مختصر سی تاریخ کے جائزے میںسمجھ میں آسکتا ہے کہ کس طرح فرانس، برطانیہ اوریوروپ کے چھوٹے چھوٹے سامراجی ممالک مثلاً بلجیم، نیدرلینڈ، اٹلی، اسپین وغیرہ نے اپنی فوجی طاقت کے بل پر ان ممالک نے حملہ کرکے اپنے استبدادی پنجوںکو جمایا اور مقامی سیاہ فام آبادی پر وہ مظالم ڈھائے جو تاریخ کے صفحات میں درج ہیں۔ غیرملکی طاقتوں کے اقتدار سے کافی حد تک نجات حاصل کرنے کے بعدافریقی ممالک کو مکمل طورپر ان سامراجی طاقتوں سے چھٹکارہ نہیں ملا اور ان ممالک نے مختلف حیلوں بہانوں سے افریقی ملکوں میں اپنے پنجوںکو جمائے رکھا۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ طویل سامراجی حکومتوںکی وجہ سے یہاں کے عام شہری کو نہ تو بھرپیٹ کھانے کو روٹی ملی اور نہ پینے کوپانی اور نہ تن چھپانے کے لئے کپڑا۔ یہاں کی اکثرآبادیاں تعلیم، صحت اور دوسری سہولیات سے محروم رہیں اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ان ملکوں میں مقامی لوگوںنے اقتدار پر قبضہ کیا تو کم علمی کی وجہ سے یہ تمام اقوام ایک دوسرے کے خلاف معمولی معمولی اختلافات کی وجہ سے برسرپیکار رہیں۔ علاقائی اور قبائلی رقابتیں غیرشفاف اور غیرجمہوری نظام کی وجہ سے بھی پنپیں۔ ایک خاص طبقہ اپنے ہی قبیلے کے یا علاقے کے لوگوںکی بھلائی کے بارے میں سوچتا اور دوسرے طبقات اورقبائل کو نظرانداز کرتا۔ اس سے ایک طرف تو قبائلی رقابتیں بڑھیں، مذہبی جنون بڑھا اور ایک مہذب اور شفاف نظام حکومت معرض وجودمیں نہیں آپایا۔ افریقہ کے ایک اہم عرب ملک سوڈان کی خانہ جنگی نے پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور وہاں پر جیسا کہ اس سے قبل بھی بتایا گیا ہے کہ دو مسلح اور اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی گروہ سوڈان آرمڈ فورسیزیعنی سوڈانی مسلح افواج اور رپیڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان اس قدر بلا کا معرکہ ہے کہ بغیر کسی غیرملکی مداخلت کے یہ لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ سڑکیں لہولہان ہیں اور فضا میں گولہ بارود کی بو اور دھمکاکوںکی آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ سوڈان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کے دو متحارب اور متصادم گروپ کی رقابت تقریباً ایک دہائی قبل کی دارفر میں خانہ جنگی کا نتیجہ ہے۔ جنرل حمیدیتی کی قیادت والے آر ایس ایف مسلح گروپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دارفر میں سوڈانی اخوان المسلمین سے نکلا ہوا ایک فوجی گروپ ہے جو اس دور میں جنجوید کے نام سے مشہور تھا۔ دارفر جنگ جو 2003سے 2020تک چلی اور اس میں آرایس ایف میں وہ قبیلہ سرگرم تھا جو اونٹ پرور کہلاتا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ انتہائی خونخوار تھا اوراس نے اس دارفرجنگ کے دوران بڑے پیمانے پر انسانیت سوز جرائم انجام دیے تھے۔ اس کے سربراہ اورکئی جنگجو انٹرنیشنل کرمینل کوڈ میں مطلوب ہیں۔ اگرچہ سوڈان کی آج کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت سوڈان کی فوج کے سربراہ جن کے پاس ہوائی طاقت بھی ہے اس فوج کو ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ عبدالحمید حمیدیتی کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اقتدار میں رہنا نہیں بلکہ سوڈانی فوج کے ان فوجی جنرلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے جوکہ جنگی جرائم میں ملوث تھے اور حمیدیتی نظام حکومت جمہوری طورپر منتخب نمائندہ سرکار کو منتقل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ سوڈان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوڈان میں کبھی بھی ایک مضبوط جمہوری شفاف نظام حکومت قائم نہیں رہا۔ یہ ملک اکثر فوجی جنرلوںاور سربراہوں کے دست نگر رہا اوریہ موجودہ تصادم کوئی نیا نہیں بلکہ اس کی تاریخ 1980کی دہائی میں جاکر ملتی ہے جب سوڈان میں مسلح غیرسرکاری فوجوں نے سوڈان پر حملہ کردیا تھا اوروہاں پر بغاوت برپا ہوگئی تھی۔ بعدمیں باغیوںاور فوجیوںکے درمیان ایک معاہدہ کے بعد متصادم اورمتحارب مسلح فوجی گروپوں میں ایک تصفیہ ہوگیا اور یہ دونوں گروپ سوڈان کی فوج کا حصہ بن گئے۔ اس سے قبل بھی 1972میں تقریباً یہی صورت حال پیش آئی تھی اور بعدمیں ایک عدیس آبابا ایگریمنٹ کے بعد یہ تصادم ٹلا تھا۔ غرض کہ سوڈان میں فوج کے اکثر اوقات اسی طرح دو یا دو سے زیادہ گروپ رہے ہیں جو بے تحاشا جنگی جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ بحران میں سوڈانی فوج کے سربراہ البرہان اور آر ایس ایف کے سربراہ حمیدیتی کے درمیان کا یہ معرکہ کتنا جانی اورمالی نقصان کرتا ہے اوریہ قتل وغارت کا بازار کہاں جاکر ٹھہرتا ہے۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS