لیبیا : آتش فشاں پھٹنے کو ہے

0

افریقہ کے ایک اورملک لیبیا میں 2004سے جاری خانہ جنگی اور خارجی مداخلت سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔ پوری دنیا کی اہم سفارتی کوششوں کے باوجود وہاں ایک مستحکم نظام کا قیام تو کجا جنگ بندی کا امکان بھی معدوم ہوتا جارہا ہے۔ لیبیا میں قبائلی، علاقائی اور سیاسی اختلافات ملک کو برباد کر رہے ہیں۔ لیبیا جوافریقہ کا سب سے اہم اور خوشحال افریقی ملک تھا اور براعظم میں خارجی مداخلت اور بڑی طاقتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے یوروپی یونین کی طرح ایک موثر طاقت بن کر کھڑا ہوگیا تھا، امریکہ اورناٹو نے 2011 میں جمہوریت نواز تحریک کو حمایت دینے کی آڑ میں فوجی کارروائی کرکے اس عظیم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ آج 12سال کی خانہ جنگی اور خارجی مداخلت کے بعد بھی حالات میں سدھار نہیں ہے اوریہ خانہ جنگی لیبیا کے دو خطوںم یں کشمکش میں بدل گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی مصالحتی کوششوں کو دھکا لگا ہے۔ طرابلس کی اتفاق رائے کی حکومت (جی این یو) نے مغربی لیبیا میں الزاویہ پر بم باری کرکے ایک نئے تصادم کا آغاز کردیا ہے۔ یہ کارروائی توانائی کے وسائل پر کنٹرول کرنے کی کوشش بتائی جارہی ہے۔ لیبیا میں پیٹرولیم مصنوعات، قیمتی معدنیات، سونا اور پلاٹینئم کے بے پناہ وسائل ہیں۔ حکومت نے اس کارروائی کو انسانوں اور پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کے خلاف بتایا ہے۔ جبکہ الزاویہ کے ارباب اقتدار نے اس کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔ اس بابت لیبیائی پارلیمنٹ نے بیان جاری کرکے ذ مہ دار افراد کو بین الاقوامی عدالت آئی سی سی اور ترکی کی پارلیمنٹ تک لے جانے کی بات کہی ہے۔ اس معاملہ میں بین الاقوامی برادری نے فکرمندی کا اظہار کیا ہے اور طرابلس کی قومی اتفاق رائے کی حکومت یا پی این یو کے وزیراعظم عبدالحمید محمد الربیبہ پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ اس کارروائی میں کم از کم 21افراد کی موت ہوگئی تھی۔ الزاویہ متحارب فریق کا انتظامی ہیڈکوارٹر ہے اور یہ کارروائی ملک کے ایک اقتصادی، سیاسی مراکز کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے طورپر دیکھی جارہی ہے۔
اقوام متحدہ لیبیا میں خانہ جنگی ختم کرنے اوراتفاق رائے کی حکومت کے قیام کی کوشش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے یواین ایس ایم آئی ایل کے تحت 2011 سے پیدا ہونے والی خانہ جنگی کوختم کرنے اور وہاں ایک عبوری حکومت کے قیام کے لئے چھ نکاتی پروگرام وضع کیا تھا۔ اس عبوری حکومت کے قیام کا مقصد لیبیا میں ایک دستور بنانے اور جمہوری نظام کوقائم کرنا ہے۔ لیبیا میں اس وقت دو پارلیمنٹ ہیں اور طرابلس اور مغربی لیبیا میں دونظام کام کررہے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کو بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہے اوراس پارلیمنٹ کے ساتھ تبادلہ خیال کرکے یواین او کئی تجاویز تیارکرچکا ہے۔ آئین کا تیسرا ڈرافٹ سیاسی لیڈروں ، لیبیا میں ملوث خارجی طاقتوںاورسیاسی وعسکری تنظیموںاور گروپوں کے زیرغور ہے۔ مگراتفاق رائے کی عبوری حکومت ایسے حالات میں کیسے معرض وجود میں آئے گی جب لیبیائی فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر کی قیادت والاگروپ اور انتہائی جارحانہ موڈ میں ہے۔ وہ وزیراعظم کی وفادار اور فوج کے خلاف آرپار کی لڑائی کا اعلان کرچکے ہیں۔ وزیراعظم کی وفادار فوج کے خلاف جنرل حفتر کی لیبیائی نیشنل آرمی (ایل این اے) محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ لیبیا میں اقوام متحدہ نے اب تک کسی حد تک تصادم کوکنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود 4؍اپریل کے بعدسے تقریباً پانچ سو افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
لیبیا کے سیاستدانوں کولگتا ہے کہ ملک میں خانہ جنگی چھیڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ صدارتی امیدوار سلمان البہومی نے وزیراعظم الحمیدی کی فوجی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے ان کو لیبیا کے امن اور استحکام کے لئے خطرہ بتایا ہے۔ وزیراعظم کے پس پشت ترکی کی حمایت بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی کے ڈرون زاویہ میں فوجی کارروائی میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ ترکی اس صورت حال میں اپنے آپ کو علیحدہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اوراس نے اس طرح کی فوجی کارروائیوں سے اپنا اظہارلاتعلقی کیا ہے مگر وزیراعظم عبدالحمید البدیہ اور ترکی کے درمیان فوجی تعاون کی خبریں گشت کر رہی ہیں اور ترکی کے ذریعہ البدیہ کی وفادار فوج کو ڈرون فراہم کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔
ترکی 2011 میں کرنل قذافی کے زوال اوران کی موت کے بعد سے لگاتار لیبیا میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس کی مداخلت سے طرابلس اورمغربی لیبیا کے ارباب اقتدار میں تصادم بڑھ رہا ہے۔
لیبیا میں طرابلس سے کنٹرول ہونے والی حکومت کو خلافت عثمانیہ کی حکومت قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیبیا میں خانہ جنگی اورخلفشار کا فائدہ ہر کوئی اٹھا رہا ہے۔ روس نے کئی علاقوں میں اپنی موجودگی مضبوط بنالی ہے اور اپنے فوجی اڈوں کے ذریعہ وہ قرب وجوار کے ملکوںمیں اپنی فوجی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔
ایسے حالات میں جنرل حفتر کی کوشش مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ 2015 میں ان کو لیبیائی ایوان نمائندگان کی وفادارفوج کا کمانڈر مقرر کردیا گیا تھا۔ ان کو لیبیا کی سیاست اورعسکری جدوجہد کا اہم فریق سمجھا جاتا ہے۔ امریکی شہری ہونے کے باوجود وہ کرنل قذافی کے زبردست وفادار رہے ہیں۔ 1969 میں کرنل قذافی کی فوج کا حصہ تھے اور انہوںنے اسرائیل کے خلاف کرنل قذافی کی فوجی مہم میں قائدانہ رول ادا کیاتھا۔ وہ افریقی ملک چاڈ میں بھی فوجی مہموں میں شامل رہے ہیں اور چاڈ میں ان کوجنگی قیدی بنالیا گیا تھا بعدمیں امریکہ کی مداخلت کے بعد ان کو رہا کیا گیا اور وہ کچھ عرصہ امریکہ میں رہے۔ کرنل قذافی نے ان کو غدار قرار دے دیا تھا۔ ان کے لئے سزائے موت کا حکم صادر کردیا گیا تھا۔ کرنل قذافی کا تختہ پلٹنے میں انہوںنے اہم رول ادا کیا تھا۔ وہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدہ صدارتی عہدے پر فائز ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 2021 میں صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طورپر کھرا ہونے کا انہوںنے اعلان کیا تھا مگریہ انتخابات خانہ جنگی میں شدت اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے ملتوی ہوگئے تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS