داغدار امیدوار

0

سیاست میں داغ کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا، پھر بھی داغدار لیڈروں سے سیاست پاک نہیں ہے اورسیاست کی جرائم زدگی اس ملک کا بہت پرانا مسئلہ ہے ۔ سیاسی پارٹیاں دعوے خواہ کچھ بھی کریں، کوئی بھی پارٹی ایسے لیڈروں سے پاک نہیں ہے ، جو مجرمانہ پس منظر نہ رکھتاہو یا جس کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج نہ ہوں ، بعض لیڈروں کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہوتے ہیں ، پھر بھی وہ الیکشن لڑتے ہیں، کچھ تو جیل میں سزاکاٹتے ہوئے انتخابی میدان میں کود جاتے ہیںاورجیت بھی جاتے ہیں۔ پارٹی بھی ایسے لوگوںکو ٹکٹ دیتی ہے اورلوگ انہیں منتخب کرکے پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں پہنچادیتے ہیں۔ ان کے بارے میں ساری جانکاریاں الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہیں، لیکن وہاں تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوپاتی، جس کی وجہ سے انہیں اپنے امیدواروں کے بارے میں پتہ ہی نہیں چلتا، بعد میں جب کاغذات نامزدگی کے وقت داخل ان کے حلف ناموں کا تجزیہ کوئی ایجنسی یا ادارہ کرتاہے اور رپورٹ اخبارات میں شائع ہوتی ہے، تو لوگوں کو پتہ چلتاہے کہ فلاں پارٹی کے اتنے امیدوار یا منتخب ممبران اسمبلی یا پارلیمنٹ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں، لیکن اس بار الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے امیدواروں کیلئے نیاضابطہ بنایا ہے۔ اب ایسے امیدواروں کو3بار اخبارات میں اشتہار چھپواکریہ بتانا ہوگاکہ ان کا کیا مجرمانہ ریکارڈ ہے ۔ یہیں نہیں تمام سیاسی پارٹیوں کو اخبار میں اشتہار دے کر بتانا ہوگاکہ ان کے کتنے امیدوار ایسے ہیں ، جن کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس نئے ضابطہ سے نہ صرف امیدواروں بلکہ سیاسی پارٹیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، کیونکہ رائے دہندگان کے سامنے ان کی کچھ نہ کچھ جوابدہی بڑھے گی ۔جوباتیں پہلے صرف الیکشن کمیشن کو بتائی جاتی تھیں، اب وہ اشتہار کے ذریعہ لوگوں کو کھل کر بتائی جائیں گی ۔
نئے ضابطہ کے تعلق سے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے نمائندوں کے بارے میں جاننے کا پورا حق ہے۔ اس لئے اگر کوئی ایسا شخص الیکشن لڑتا ہے، جس کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں، تو اسے اپنے خلاف الزامات کے بارے میں پوری جانکاری دینی ہوں گی۔ ایسے میں ووٹرز کو امیدوار کے بارے میںپوری جانکاری مل جاتی ہے اور لوگ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے شخص کو اپنا لیڈر منتخب کرنے سے بچ سکتے ہیں، لیکن کیاایساممکن ہے ؟ کیا لوگ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لیڈروں کو منتخب کرنے سے گریز کریں گے ؟ہوسکتاہے کہ الیکشن کمیشن کی سوچ صحیح ہو ،عوام کچھ سیکھیں اورغلط امیدواروں کوووٹ دینے سے گریز کریں ۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ شرمندگی سے بچنے کیلئے ایسے لوگ الیکشن ہی نہ لڑیں یا سیاسی پارٹیاں ایسے لوگوں کو امیدوار بنانے سے بچیں ۔موجودہ قانونی دائو پیچ کے دورمیں پورے طور پر اسے مئوثر حربہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں، لیکن نئے ضابطہ کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑے گااورملکی سیاست میں تبدیلی آئے گی ۔دراصل مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں اور نفرت وتعصب اوراشتعال انگیزی کی سیاست کرنے والے لیڈروں کااثرورسوخ اوردبدبہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انہیں ٹکٹ دینا سیاسی پارٹیوں کی مجبوری ہے اورجو رائے دہندگان امیدوار کے بجائے پارٹی کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں، ان کے پاس دوسرا متبادل نہیں رہ جاتا ۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اچھے امیدواروں پر داغدار امیدواروں کو ترجیح دیتے ہیں، پھر الیکشن کمیشن کے ضوابط کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا۔ اب تک یہی تو ہوتارہا ہے ، جس کی وجہ سے سیاست میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوںکے داخلہ کو روکانہیں جاسکا اوریہ بات صرف سیاست کا ذریعہ بن کر رہ گئی ، جو ایک دوسرے کے خلاف کی جاتی ہے ۔
ہرکوئی حتی کہ عدلیہ اورالیکشن کمیشن بھی چاہتاہے کہ ملک کی سیاست اورحکومت میں داغدار لوگ داخل نہ ہوں ،لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میںان کو لڑنے سے کیسے روکاجائے؟ روک پانے سے قاصر ہیں کیونکہ داغدار لوگوں کیلئے نئے نئے ضوابط بنائے جاتے ہیں اورفیصلہ کا اختیار لوگوں کو دیا جاتاہے کہ وہ اپنی صوابدید کی بنیاد پر ووٹ دیں اوراپنے نمائندے منتخب کریں ۔ دوسری طرف لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ہرچیز کے عادی ہوگئے ہیں، مہنگائی، بے روزگاری یا لیڈروں کے مجرمانہ مقدمات کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔وہ پریشان ہوتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ وقتی طورپر شور مچاتے ہیں ،پھر خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑدیتے ہیں ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS