وجود سے عدم کا سفر

0

انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کررہی دنیا ایک طرف سہولتوں اور آسائش کے انبار لگارہی ہے تو دوسری طرف ترقی کی یہی تیز رفتاری دنیا اور زمین کوانسانی زندگی کیلئے خطرناک بھی بنارہی ہے۔ انسانی حیات کیلئے قدرت کی طرف سے زمین اور فضا میں رکھے گئے وسائل کا توازن بگڑ رہا ہے۔ انسانی سرگرمیوں اور استحصالی رجحانات کی وجہ سے ماحولیات میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ ہوا جس میں انسان سانس لیتا ہے، وہ پانی جو اس کی پیاس بجھاتا ہے، وہ خوراک جو اس کی پرورش کرتی ہے اور توانائی کا بہاؤ جو اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے، یہ سب تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔ موسمیات میںایسی تبدیلی آچکی ہے جواس سے پہلے گزرنے والی کئی صدیوں میںنہیںدیکھی گئی تھی۔زمین کا درجۂ حرارت معمول سے کہیں زیادہ رفتار کے ساتھ بڑھنے لگا ہے۔
اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اگلے پانچ برسوںمیں زمین کا اوسط درجۂ حرارت 1.5 ڈگری کی حد سے تجاوز کر جائے گا۔یونیورسٹی آف بفیلو، نیویارک، یونیورسٹی آف کنیکٹی کٹ (Connecticut) امریکہ اور یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن،جنوبی افریقہ کی ایک تحقیق میں بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ اگر زمین کا درجۂ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس بڑھ جائے توزمین پر موجودحیات میں سے 15 فیصد انواع مر جائیں گی اوراگرزمین 2.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ گرم ہوگی تو اس صورت میںزمین پر دستیاب حیاتیاتی نسلوں کا30 فیصد معدوم ہوجانے کاخدشہ ہے۔ اس تحقیق کیلئے تینوں یونیورسیٹیوں کے سائنسدانوںنے دنیا میں دستیاب حیات کی35 اقسام پر درجۂ حرارت کے اضافہ کا تجربہ کیا تھا۔ تینوں یونیورسٹیوں کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں بڑی تبدیلی آئے گی۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ نسل تمام براعظموں اور سمندروں سے ختم ہو جائے گی۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ انواع اس وقت مر جائیں جب گرمی کی سطح ان کی برداشت سے بڑھ جائے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ زیادہ درجۂ حرارت میں زندہ رہ سکتی ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کئی انواع کو رہنے کیلئے مناسب جگہ نہیں مل سکے گی۔
اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ اب اور 2027 کے درمیان زمین کا درجۂ حرارت 19ویں صدی کے وسط کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سالانہ سے زیادہ ہو جائے گا۔ یہ حد اس لیے اہم ہے کہ 2015 کے پیرس معاہدے میں اسی 1.5 ڈگری سینٹی گریڈاوسط درجۂ حرارت کو دنیا کی سلامتی کیلئے خطرناک حد قرار دیا گیا تھا اور مختلف ممالک نے عہد کیا تھا کہ وہ اس حد کو بڑھنے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔لیکن تحفظ ماحولیات کیلئے عالمی برادری کے مابین ہونے والے اس پیرس معاہدہ پر ترقی یافتہ ممالک میں سے کسی نے بھی سنجیدگی کاکوئی مظاہرہ نہیں کیا، اس کے برعکس تیزرفتار ترقی کی خواہش اورایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ہوس نے ان ممالک سے ایسے تجربات کرائے جن کی وجہ سے زمین کادرجۂ حرارت تیزی سے بڑھنے گا۔عالمی سطح پر یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ ماحولیات کیلئے سب سے مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زیادہ تر اخراج فوسل فیول سے ہوتا ہے، اس لیے توانائی کے تحفظ اور قابل تجدید توانائی کے استعمال پربھی زور دیا جاتاہے۔ لیکن اس کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شرح عام دنیا سے کہیںزیادہ ہے اوراس کی وجہ سے 2027 تک کسی بھی ایک سال میں 1.5 ڈگری کی حد عبور کرنے کا امکان بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایک دہائی پہلے زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ کا یہ امکان صرف 10 فیصد تھا۔ 2020 میں یہ 20 فیصد ہو گیا۔ 2021 میں 40 فیصد اور گزشتہ سال 48 فیصد تک پہنچ گیا۔رواںسال 2023میں یہ امکان 66 فیصد بتایا گیا ہے۔ زمین کا درجۂ حرارت بڑھنے کی یہ رفتار اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ 1850 سے 1900 کے درمیان 50برسوں میںزمین کے اوسط درجۂ حرارت میں 1.1 ڈگری سیلسیس کا اضافہ درج کیا گیاتھا۔
رواں الفیہ میں 1.5سے 2ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ اگر زمینی حیات کی دیگر انواع کو معدوم کرنے کا سبب بن سکتا ہے تو یہ سوچا جاسکتا ہے کہ حیات انسانی پر اس کے کیا مضراثرات ہوں گے۔ وہ دن آنے سے پہلے ضرور ی ہے کہ انسان ماحولیاتی وسائل کے استحصال اور غیر معقول استعمال سے گریز کرے۔ماحول کے ساتھ انصاف پسندانہ تعلق قائم کرے۔اسی صورت میںہم انسان اس دنیا اور زمین کو انسانوں کے رہنے کے لائق برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ورنہ دوسری صورت میں زمینی حیات کی دوسری انواع کی طرح وجود سے عدم کی طرف نسل انسانی کاسفر بھی تیز رفتار ہو جائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS