قومی سیاست میں اتفاق رائے قصّہپارینہ

0

کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آنے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح اور دہلی کے جنتر منتر پر پہلوانوں کے احتجاج کے معاملات نے ملک کی سیاست کو تصادم کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن اور حکمراں جماعت میں مختلف سیاسی ایشوز پر نہ صرف یہ کہ اتفاق رائے کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ ایشوز پر اپوزیشن پارٹیاں جو کہ دو گروپوں میں بنٹی ہوئی تھیں ،اب کچھ پر ان میں اتفاق رائے بنتا جا رہا ہے اور لگ رہاہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں اپوزیشن کی اکثر پارٹیاں متحد ہوجائیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ غیر معمولی صورت حال ہوسکتی ہے۔
نئی دہلی میں 27مئی کو نئے پارلیمنٹ عمارت کا افتتاح بہت دھوم دھام سے ہوا۔ بی جے پی نے اس موقع کو اپنے نظریات کے مطابق منفرد پیرائے میں پیش کرنے اور اس کو ہندوستان کی موجودہ جمہوری نظام کی جیت اور مضبوطی کے ساتھ ساتھ ملک کے روایتی ہندو وراثت کے موقع کے طور پر منایا۔ اپوزیشن پارٹیاں اس بات کی قائل تھیں کہ ہندوستان کے عظیم ترین منصب پر متمکن قبائلی خاتون صدر جمہوریہ ہند کو اس شاندار عمارت کا افتتاح کرنا چاہیے تھا اور اس موقع کو کسی بھی دوسرے مقصد(سیاسی) کے لیے استعمال کرنا غیر مناسب ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس معاملہ پر اس قدر مصر رہی کہ انہوںنے افتتاحی تقریب میں شمولیت ہی اختیار نہیں کی اور ہندوستان کی 20سیاسی پارٹیوں نے بائیکاٹ کیا۔یہ موقع ہندوستان میں اتفاق رائے کی آزادی کا ایک بہترین نمونہ ہوسکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوا اور ایسا لگا کہ اس واقعہ کے بعد اپوزیشن اور حکمراں پارٹیاں انتہائی تصادم والی صورت حال کی طرف پہنچ گئی تھیں اور اتفاق رائے قصۂ پارینہ بن گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس موقع کو اپنی صفحوں میں اتحاد کے طور پر دیکھ رہی ہیں جبکہ دوسری طرف حکمراں اتحاد اس کو تاریخی موقع قرار دے رہا ہے اورنظریاتی نقطۂ نظر سے ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم موڑ قرار دے رہا ہے۔20پارٹیوں کا بائیکاٹ جس میں کانگریس پارٹی بھی شامل تھیں۔ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنا متصادم ہوتا جار ہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ سے وابستہ تقاریب اور مواقعوں میں اس صورت حال کی جھلک دکھائی دے رہے ہو۔ پچھلے کئی اجلاسوں کے دوران پارلیمنٹ کے ایوانوں میں جو نعرے بازی احتجاج، اپوزیشن لیڈروں کا نااہل قرار دینا تقاریر کو حذف کرنا وغیرہ ایسے معاملات رہے ہیں جو ہندوستان کے سیاسی ماحول میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ راہل گاندھی کو جس انداز سے نااہل قرار دیا گیا تھا اس کے فوراً بعد ہی سرکاری بنگلہ خالی کرانے کا حکم دیا گیا تھا یہ بھی ہندوستان کی سیاست میں نئے زوال کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں جوابی حکمت عملی اختیار کررہی ہیں اوران کے لہجے اورانداز دونوں میں جارحیت ہے۔ دونوں فریقوں کا تصادم بڑھتا جا رہا ہے اس سے قبل بھی سیاسی جماعتیں خاص طور پر اپوزیشن پارٹیاں مرکزی سرکار کی ایجنسیاں سی بی آئی او رای ڈی انکم ٹیکس کے ذریعہ کارروائی کو لے کر شکایتیں کرتی رہی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں نے صدر جمہوریہ سے ملاقات کی اور اپنی بات رکھی ۔ منی پور کے معاملے میں بھی اپوزیشن پارٹیوں نے صدر جمہوریہ ہند سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اپوزیشن اور حکمراں جماعتوں میں ترسیل کی کتنی کمی ہے۔
مرکز میں برسراقتدار اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی اور اروندکجریوال کے درمیان بھی تصادم ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ مرکزی سرکار کی مبینہ طور پر کوششو ںکی وجہ سے دہلی کے دو اہم لیڈر اور سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا اور ستیندر جین جیل میں ہیں اور کئی حلقو ںمیں بات کہی جا رہی ہے کہ اب وزیراعلیٰ اروند کجریوال کا نمبر ہے اور ہوسکتا ہے کہ جلد ہی ان کو بھی گرفتار کرلیا جائے۔ یہ پیشگوئیاں درست ہیں یا نہیں مگر دہلی کی حکومت کام کاج میں روڑی اٹکانے کی بات زوروشور سے اٹھائی جارہی ہیں اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال بغیر کسی مصلحت کوشی کو ترک کرکے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف بیان دے رہے ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کو اس معاملہ پر اپنے ساتھ لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مرکزی سرکار نے بیوروکریسی پر عوامی طور پر منتخب حکومت کے اختیارات ایک آرڈیننس کے ذریعہ سلب کرلیے۔ یہ وہ اختیارات ہیں جن پر کچھ دن پہلے ہی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کیاتھا کہ بیورو کریسی پر منتخب حکومت کو ہی تقرریاں ٹرانسفر اور ٹرمینشن کرنے کے اختیارات ہیں۔ اس معاملہ پر کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں اختلافات ہیں ۔ ظاہر ہے کہ عام آدمی پارٹی دہلی اور پنجاب میں برسراقتدار ہے اور دونوں جگہوں پر اینٹی بی جے پی اسپیس میں کانگریس کی قیمت پر عام آدمی پارٹی نے بر تری حاصل کی تھی۔ اس معاملہ میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی اختلافات فطری ہیں مسئلہ یہ ہے کہ آج کے حالات میں اس اختلاف کو کیا نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور اگر کیا جاسکتا ہے تو کس حد تک ۔ کانگریس پارٹی نے واضح کردیا ہے کہ مذکورہ بالا آرڈیننس کے معاملے میں مقامی کانگریس کے لیے لیڈروں اور اکائیوں کی رائے لیے بغیر کوئی موقف اختیار نہیں کرے گی۔
مرکز اور ریاستوں میں حکمراں یا اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان بھی اختلافات ہیں اور شدید اختلافات ہیں۔ اس معاملے میں سب سے بڑی مثال مہاراشٹر کی ہے جہاں پر شیو سینا نے اختلافات کے بعد اکناتھ شندے بی جے پی کی حمایت کے ساتھ برسراقتدار آگئے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں دلچسپ کیس ہے اور اس میں کئی قانونی پہلو اور پیچیدگیاں ہیں جن کا فائدہ اور نقصان جلد ہی نظرآجائے گا ۔ ظاہرہے کہ اگلے جن صوبو ں میں ریاستی اسمبلی انتخابات ہونے ہیں ان میں مہاراشٹر ان میں اہم ریاست ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا اثر مرکز کی سیاست پر پڑے گا۔ پارلیمنٹ میں مہاراشٹر کی 48 سیٹیں ہیں ۔ کرناٹک کے نتائج سب کے سامنے ہے۔کرناٹک ایک اور کرناٹک لوک سبھا میں28سیٹیں۔ مدھیہ پردیش میں حالات بگڑتے جارہے ہیں اور بی جے پی کو نقصان ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ راجستھان میں کانگریس کا اندرونی اختلاف کس حد تک ختم ہوپائے گا یہ بات بھی جلد بازی ہوجائے گی لیکن راجستھان میں بی جے پی کے درمیان اختلافات غیر معمولی ہیں۔ راجستھان میں لوک سبھا کی 25سیٹیں ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS