آب و ہوا میں تبدیلی سے اٹھ رہے ہیں سمندری طوفان: پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

یمن میں بحیرۂ احمر کے کنارے واقع کافی کی تجارت کے لیے مشہور ’’موچا‘‘ شہر کے نام پر مئی کے وسط میں خلیج بنگال میں قہر بن کر آئے ’’موچا‘‘ طوفان نے بھلے ہی ہندوستان میں کوئی بہت بڑا نقصان نہیں کیا ہو- اس سال کے پہلے سمندری طوفان کے ساتھ ہندوستان کی ساحلی بستیوں پر اب دسمبر تک ایسے ہی کئی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ایک محض قدرتی آفت نہیں ہے، درحقیقت تیزی سے بدل رہے دنیا کے قدرتی مزاج نے اس طرح کے طوفانوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ جیسے جیسے سمندر کے پانی کا درجۂ حرارت بڑھے گا، اتنے ہی زیادہ طوفان ہمیں جھیلنے ہوں گے۔ یہ ایک انتباہ ہے کہ انسان نے قدرت کے ساتھ چھیڑچھاڑ کو کنٹرول نہیں کیا تو سائیکلون یا طوفان کی وجہ سے ہندوستان کے سمندری ساحل والے شہروں میں عام لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے گا۔
آب و ہوا میں تبدیلی پر 2019 میں جاری انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی خصوصی رپورٹ ’’اوشن اینڈ کرایوسفیئر اِن اے چینجنگ کلائمیٹ‘‘ کے مطابق ساری دنیا کے سمندر 1970 سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج سے پیدا ہونے والی 90 فیصد اضافی گرمی کو جذب کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ سے سمندر گرم ہو رہے ہیں اور اسی سے طوفان جلدی جلدی اور خطرناک شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ موچا طوفان سے پہلے خلیج بنگال میں آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے سمندر کا پانی معمول سے زیادہ گرم ہو گیا تھا۔ اس وقت سمندر کی سطح کا درجۂ حرارت اوسط سے تقریباً 0.51 ڈگری سیلسیئس زیادہ گرم تھا، کچھ علاقوں میں یہ معمول سے تقریباً 1.2 ڈگری سیلسیئس زیادہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جان لیں کہ سمندری درجۂ حرارت میں 0.1 ڈگری اضافے کا مطلب ہے کہ طوفان کو اضافی توانائی ملنا۔ ہوا کی ایک بڑی مقدار کے تیزی سے گول گول گھومنے سے پیدا ہونے والا طوفان ’ٹروپیکل سائیکلون‘ کہلاتا ہے۔ زمین جغرافیائی طور پر دو نصف کرہ میں منقسم ہے۔ سرد یا برفانی شمالی نصف کرہ میں پیدا ہونے والے اس طرح کے طوفانوں کو سمندری طوفان یا ٹائفون کہتے ہیں۔ ان میں ہوا کی گردش گھڑی کی سوئیوں کی مخالف سمت میں ایک سرکلر کی شکل میں ہوتی ہے۔ جب بہت تیز ہواؤں والے خوفناک آندھی طوفان اپنے ساتھ موسلا دھار بارش لاتے ہیں تو انہیں سمندری طوفان کہتے ہیں جبکہ ہندوستان کے حصے جنوبی نصف کرہ میں انہیں چکروات یا گردابی طوفان یا سائیکلون کہا جاتا ہے۔ اس طرف ہوا کی گردش گھڑی کی سوئیوں کی سمت میں سرکلر ہوتی ہے۔ کسی بھی ٹروپیکل طوفان کو سائیکلونک طوفان کے زمرے میں تب شمار کیا جاتا ہے جب اس کی رفتار کم از کم 74 میل فی گھنٹے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ طوفان کئی ایٹم بموں کے برابر توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
زمین کے اپنے محور پر گھومنے سے سیدھا جڑا ہے گردابی طوفانوں کا اٹھنا۔ خط استوا کے قریب جن سمندروں میں پانی کا درجۂ حرارت 26 ڈگری سیلسیئس یا زیادہ ہوتا ہے، وہاں اس طرح کے طوفانوں کے آنے کے خدشات ہوتے ہیں۔ تیز دھوپ میں جب سمندر کے اوپر کی ہوا گرم ہوتی ہے تو وہ تیزی سے اوپر کی جانب اٹھتی ہے۔ بہت تیز رفتار سے ہوا کے اٹھنے سے نیچے کم دباؤ کا علاقہ تیار ہو جاتا ہے۔ کم دباؤ کے علاقے کی وجہ سے وہاں خلا یا خالی پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے اردگرد کی ٹھنڈی ہوا تیزی سے جھپٹتی ہے۔ چونکہ زمین بھی اپنے محور پر ایک لٹو کی طرح گول گھوم رہی ہے، اس لیے ہوا کا رخ پہلے تو اندر کی طرف ہی مڑجاتا ہے اور پھر ہوا تیزی سے خود ہی گھومتے ہوئے تیزی سے اوپر کی جانب اٹھنے لگتی ہے۔ اس طرح ہوا کی رفتار تیز ہونے پر نیچے سے اوپر بہت تیز رفتار میں ہوا بھی گھومتی ہوئی ایک بڑا گھیرا بنالیتی ہے۔ یہ گھیرا کئی بار دوہزار کلومیٹر کے دائرہ تک وسیع ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں، خط استوا پر زمین کی گردش کی رفتار تقریباً 1038 میل فی گھنٹے ہے جبکہ قطبین پر یہ صفر رہتی ہے۔
اس طرح کے طوفان املاک اور انسانوں کو فوری طور پر نقصان تو پہنچاتے ہی ہیں، ان کا طویل مدتی اثر ماحولیات پر بھی پڑتا ہے۔ شدید بارشوں کے باعث بننے والے دلدلی علاقے، تیز آندھی سے تباہ شدہ قدرتی جنگلات اور ہریالی، جانوروں کے قدرتی مسکن اور پوری فطرت کے توازن کو بگاڑ دیتے ہیں۔ جن جنگلات یا درختوں کو مکمل شکل پانے میں دہائیاں لگیں، وہ پلک جھپکتے ہی نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔ تیز ہوا کی وجہ سے ساحلی علاقوں میں میٹھے پانی میں کھارے پانی کے ملنے اور زراعتی زمین پر مٹی اوردلدل بننے سے ہوئے نقصان کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
برصغیر ہند میں بار بار اور ہر بار پہلے سے زیادہ مہلک طوفان آنے کی اصل وجہ انسانوں کے ذریعے فطرت کے اندھا دھند استحصال سے پیدا ہونے والا ماحولیاتی المیہ ’آب و ہوا میں تبدیلی‘ بھی ہے۔ امریکہ کی خلائی تحقیقی تنظیم نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن-ناسا نے متنبہ کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے سمندری طوفان مزید خطرناک ہو جائیں گے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے ٹروپیکل سمندروں کا درجۂ حرارت بڑھنے سے صدی کے آخر میں بارش کے ساتھ شدید بارش اور طوفان آنے کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ بات ناسا کی ایک تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ امریکہ میں ناسا کی ’’جیٹ پروپلشن لیباریٹری‘‘ (جے پی ایل) کی سربراہی میں یہ مطالعہ کیا گیا۔ اس میں سمندر کی سطح کے اوسط درجۂ حرارت اور شدید طوفانوں کے آغاز کے درمیان تعلق کا تعین کرنے کے لیے ٹروپیکل سمندروں کے اوپر اسپیس ایجنسی کے ایٹموسفیئرک انفراریڈ ساؤنڈر (اے آئی آرایس) آلات کے ذریعے 15 سال تک جمع کیے گئے اعدادو شمارکے جائزے سے یہ بات سامنے آئی۔ تحقیق میں پایا گیا کہ سمندر کی سطح کا درجۂ حرارت تقریباً 28 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ ہونے پر شدید طوفان آتے ہیں۔ ’جیو فزیکل ریسرچ لیٹرس‘ ،فروری2019 میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سمندر کی سطح کے درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہر ایک ڈگری سیلسیئس پر 21فیصد زیادہ طوفان آتے ہیں۔ جے پی ایل کے ہارٹ مُٹ اومن کے مطابق گرم ماحول میں شدید طوفان بڑھ جاتے ہیں۔ شدید بارش کے ساتھ طوفان عام طور پر سال کے گرم ترین موسم میں آتے ہیں۔ لیکن جس طرح سردیوں کے دنوں میں ہندوستان میں ایسے طوفانی حملے بڑھ رہے ہیں، یہ ہمارے لیے ایک سنگین انتباہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS