آب و ہوا میں تبدیلی سے طاقتور ہو رہے ہیں مچھر

0

پنکج چترویدی

اس سال بھادو کی بارش شروع ہوئی اور اترپردیش اور بہار کے کئی اضلاع میں بچوں کے بخار اور اس کے بعد اموات کی خبریں آنے لگیں، صرف فیروز آباد ضلع میں ہی تقریباً پچاس بچوں کی موت ہوگئی۔ یہ واضح ہوچکا ہے کہ بڑے پیمانے پر بچوں کے بیمار ہونے کی اصل وجہ مچھروں سے پھیلنے والی بیماریاں ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کئی دہائیوں سے ملیریا کے خاتمے کا کام جاری ہے لیکن دور رس منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے نہ تو مچھر کم ہو رہے ہیں اور نہ ہی ملیریا، اس کے برعکس زیادہ طاقتور ہوکر مچھر مختلف قسم کی بیماریاں منتقل کر رہے ہیں اور ملیریا، ڈینگی جاپانی بخار اور چکن گنیا جیسے نئے تباہ کن ہتھیاروں سے لیس ہو کر عوام پر حملہ آور ہیں۔
یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے یہاں ملیریا سے حفاظت کے لیے استعمال ہو رہی ادویہ دراصل مچھروں کو ہی طاقتور بنا رہی ہیں، خاص کر راجستھان کے صحرائی علاقوں (جہاں حالیہ برسوں میں غیرمتوقع طور پر بھاری بارش ہوئی ہے)، بہار کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع، مدھیہ پردیش، شمال مشرقی ریاستوں اور اربن سلم میں تبدیل ہو رہے دہلی، کولکاتا جیسے میٹروپولیٹن شہروںمیں جس طرح ملیریا کی دہشت میں اضافہ ہوا ہے، وہ جدید میڈیکل سائنس کے لیے ایک چیلنج ہے۔ آج کل کے مچھر ملیریا کی ادویات کو آسانی سے ہضم کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف گھر گھر میں استعمال ہونے والی مچھرمار ادویات کے بڑھتے اثر کی وجہ سے مچھر اب زیادہ زہریلے ہوگئے ہیں۔ ملک کے پہاڑی علاقوں میں ابھی چند سال پہلے تک مچھر نظر نہیں آتے تھے، اب وہاں رات کو کھلے میں سونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایک سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہماری ادویات ڈینگی کے انفیکشن کو روکنے میں بے اثر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:
مچھروں سے تحفظ کیلئے ان پودوں سے اپنے آنگن کو مہکائیے

یونیورسٹی آف نارتھ بنگال، دارجلنگ نے بنگال کے ملیریا سے متاثرہ علاقوں میں اس سے نمٹنے کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں ڈی ڈی ٹی، میلاتھی اون، پرمیتھرن اور پروپوکسر پر تجربے کیے جس سے پتہ چلا کہ مچھروں میں قوت مزاحمت پیدا کرنے والے بائیو کیمیکل عمل کے تحت ان میں موجود انزائم کابریکسی لیسٹیریسیس، گلوٹاتھی اون ایس-ٹرانس فیریسیس اور سائٹوکروم پی 450 مشترکہ طور پر کام کرنے والے آکسی ڈیسیس کے ذریعے سے پیدا ڈیٹوکسی فکیشن کے ذریعے قوت مدافعت پیدا ہوئی ہے۔ اس تحقیق سے وابستہ سینئر سائنس داں ڈاکٹر دھیرج ساہا نے بتایا، ’کیڑے مار ادویات کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے مچھروں نے اپنے جسم میں کیڑے مار ادویات کی منصوبہ بند کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کے لیے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ اس عمل کو کیڑے مار ادویات کے خلاف مزاحمتی صلاحیت کی نشوونما کے طور پر جانا جاتا ہے۔‘ توجہ طلب ہے کہ اے ڈی ایس ایجپٹی اور اے ڈی ایس البوپکٹس ڈینگی بخار پھیلانے والے مچھروں کی انواع ہیں جو پورے برصغیر میں پھیلی ہوئی ہیں۔
ابتدائی دنوں میں شہروں کو ملیریا سے محفوظ تصور کیا جاتا تھااور اسی لیے شہروں میں ملیریا کے خاتمے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ 1990 کی دہائی میں ہندوستان میں صنعتی ترقی کے ساتھ نئی فیکٹریاں لگانے کیلئے ایسے جنگلات کاٹے گئے جنہیں ملیریا سے متاثرہ جنگلات کہا جاتا تھا۔ ایسے جنگلات پر بنے شہروں میں مچھروں کو تیار گھر مل گئے۔ پانی کی نکاسی کے خستہ حال نظام، بارش کا پانی زیادہ جمع ہونے اور چھوٹے علاقوں میں زیادہ آبادی کی وجہ سے شہروں میں ملیریا کے جراثیم تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ ہندوستان میں ملیریا کی روک تھام کے لیے 1953 میں قومی ملیریا کنٹرول پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ گاؤں گاؤں میں ڈی ڈی ٹی کے چھڑکاؤ اور کلوروکوئین کی گولیاں تقسیم کرنے کے عمل میں سرکاری محکمے یہ بھول گئے کہ وقت کے ساتھ پروگرام میں تبدیلی ضروری ہے۔ آہستہ آہستہ مچھروں میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چھوٹی سی مخلوق اب طاقتور ہو کر بے لگام ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:
آب و ہوا میں تبدیلی کا برا نتیجہ آسمانی بجلی کا گرنا

گزشتہ کچھ برسوں سے ملک میں کہرام مچانے والا ملیریا سبٹرمریم یا پرنی سییم ملیریا کہلاتا ہے۔ اس میں تیز بخار کے ساتھ فالج یا بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے۔ ہیضہ نما اسہال اور پیچش کی طرح پاخانہ میں خون آنے لگتا ہے۔ خون کا بہاؤ رک جانے سے جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ دیہاتوں میں پھیلے نیم حکیم ہی نہیں، بڑی بڑی ڈگریوں والے ڈاکٹر بھی شبہ میں پڑجاتے ہیں کہ دوا کس مرض کی دی جائے۔ ڈاکٹر لیبارٹری جانچ اور ادویات بدلنے میں مصروف رہتے ہیں اور تڑپ تڑپ کر مریض کی موت ہو جاتی ہے، تاہم برطانوی حکومت کی پبلک ہیلتھ لیبارٹری سروس (پی ایچ ایل سی) کی ایک غیر شائع شدہ رپورٹ میں بیس سال پہلے متنبہ کیا گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ملیریا خوفناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔ گرمی اور اُمس میں ہو رہا اضافہ خطرناک بیماریوں کو پھیلانے والے جراثیم اور وائرس کی منتقلی کیلئے سازگار حالات پیدا کر رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایشیا میں زیادہ درجۂ حرارت اور ٹھہرے ہوئے پانی کی وجہ سے ملیریا کے مچھروں کو پنپنے کیلئے سازگار مواقع مل رہے ہیں۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ گھروں کے اندر بیت الخلاء کی اندھا دھند تعمیر اور بیت الخلاء کے لیے گھروں کے نیچے ٹینک کھودنے کی وجہ سے مچھروں کی آبادی ان علاقوں میں بھی بڑھ گئی ہے جہاں ایک دہائی قبل تک مچھر ہوتے ہی نہیں تھے۔ واضح رہے کہ ہمارے یہاں صفائی مہم کے نام پر دیہاتوں میں بڑی تعداد میں بیت الخلاء بنائے جا رہے ہیں جن میں نہ تو پانی ہے اور نہ ہی وہاں سے نکلنے والے گندے پانی کی نکاسی کا مکمل نظام۔
زیادہ فصل کی لالچ میں آبپاشی کے وسائل بڑھانے اور فصلوں کو کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیڑے مار ادویات کے بڑھتے استعمال نے بھی ملیریا کی پرورش کی ہے۔ بڑی تعداد میں بنے ڈیم اور نہروں کے نزدیک بنی دلدلوں نے مچھروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ رہی سہی کسر فصلوں میں ڈی ڈی ٹی جیسی کیڑے مار ادویات کے بے تحاشہ غلط استعمال نے پوری کر دی۔ کھانے پینے کی اشیا میں ڈی ڈی ٹی کی مقدار زہر کی سطح تک بڑھنے لگی۔ وہیں دوسری طرف مچھروں نے ڈی ڈی ٹی کو ڈکارنے کی صلاحیت پیدا کرلی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مکان، کھیت اور کارخانے مہیا کروانے کے نام پر گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران ملک کے جنگلات کو بے رحمی سے کاٹا جاتا رہا ہے۔ کہیں کچی دھاتوں کی کھدائی اور لکڑی یا فرنیچر کیلئے بھی درختوں کو صاف کیا گیا،تاہم گھنے جنگلات مچھروں اور ملیریا کے لیے موزوں مسکن ہیں اور جنگلوں میں رہنے والے قبائلی ملیریا سے زیادہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی سے انسانی رہائش میں آئی تبدیلی اور مچھروں کے بدلتے ٹھکانے نے شہری علاقوں میں ملیریا کو جارحانہ بنا دیا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ملیریا سے نمٹنے کی پالیسی ہی غلط ہے، پہلے مریض بنو، پھر علاج ہو گا جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملیریا کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی جائے۔ ملیریا سے متاثرہ ریاستوں میں پینے کے پانی یا آبپاشی کے لیے منصوبہ بناتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ٹھہرا ہوا پانی کہیں ’’مچھروں کی افزائش کا مرکز‘‘ تو نہیں بن رہا ہے۔ زمین کی گرم ہوتی آب و ہوا جہاں ملیریا کے لیے سازگار ہے وہیں اینٹی بائیوٹکس کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے لوگوں کی قوت مدافعت کم ہو رہی ہے۔ نیم اور اس جیسی جڑی بوٹیوں سے ملیریا اور مچھروں کے خاتمے کی ادویات کو تیار کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
[email protected]

یہ بھی پڑھیں:
پانی، زمین اور عوام کیلئے خطرہ بنتی کیڑے مار ادویات

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS