آب و ہوا میں تبدیلی کا برا نتیجہ آسمانی بجلی کا گرنا

1

پنکج چترویدی

مانسون کے آتے ہی گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک کی آٹھ ریاستوں میں آسمانی بجلی گرنے سے تقریباً 76 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب تک کسی بھی ایک ماہ میں بجلی گرنے سے اموات کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مدھیہ پردیش کے بڈوانی میں پری مانسون کی بارش کے پہلے ہی دن دو افراد متاثر ہوئے۔ جھارکھنڈ میں مہلوکین کی تعداد 16 سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں کہ جھارکھنڈ ریاست میں 2021-22 کے دوران بجلی گرنے کے 4,39,828 واقعات ہوئے۔ گزشتہ سال آسمانی بجلی گرنے میں مدھیہ پردیش سرفہرست رہا، یہاں ساڑھے چھ لاکھ بار بجلی گری، پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ میں 5.7 لاکھ، مہاراشٹر میں 5.4 لاکھ، اوڈیشہ میں 5.3 لاکھ اور مغربی بنگال میں 5.1 لاکھ بار بجلی گری۔ یہ انتباہ ہندوستان کے محکمۂ موسمیات کی جانب سے دی جا چکی ہے کہ قدرتی آفات کے واقعات میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جائے گا اور گرج چمک کے ساتھ طوفان یا بجلی گرنا ان میں اہم ہے۔
یاد رہے کہ بجلی گرنے کے شکار عام طور پر دن میں ہی ہوتے ہیں، اگر تیز بارش ہو رہی ہو اور آسمانی بجلی کڑک رہی ہو تو ایسے میں پانی بھرے کھیت کے درمیان، کسی درخت کے نیچے اورکسی پہاڑی مقام پر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ موبائل کا استعمال بھی خطرناک ہوتا ہے۔ پہلے لوگ اپنی عمارتوں کے اوپر ایک ترشول جیسا اسٹرکچر لگاتے تھے جسے بجلی کا ڈرائیور کہا جاتا تھا، اس سے بجلی گرنے سے کافی بچاؤ ہوتا تھا۔ درحقیقت اس ترشول سے ایک دھات کا موٹا تار یا پٹی جوڑی جاتی تھی اور اسے زمین میں گہرائی میںدبایا جاتا تھاتاکہ آسمانی بجلی اس کے ذریعہ سے نیچے اترجائے اور عمارت کو نقصان نہ پہنچے۔
ویسے آسمانی بجلی عالمی سطح پر ایک بڑھتی ہوئی آفت ہے۔ جہاں امریکہ میں آسمانی بجلی گرنے سے ہر سال 30، برطانیہ میں اوسطاً تین لوگوں کی موت ہوتی ہے، ہندوستان میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے یعنی اوسطاً دو ہزار۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں آسمانی بجلی کی پیش گوئی اور انتباہ کا نظام ڈیولپ نہیں ہو پایا ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح بہت بڑے علاقے میں ایک ہی وقت میں مہلک بجلی گرنے کی اصل وجہ زمین کا مسلسل بدلتا ہوا درجۂ حرارت ہے۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ آشاڑھ (ہندو پنچانگ کے مطابق چوتھا مہینہ۔ اسے موسم باراں کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ مہینہ جون یا جولائی میں پڑتا ہے) میں پہلے کبھی بہت تیز بارش نہیں ہوتی تھی لیکن اب ایسا ہونے لگا ہے، اچانک بہت کم وقت میں تیز بارش ہو جانا اور پھر ساون- بھادوں کا خشک جانا- یہی آب و ہوا میں تبدیلی کا المیہ ہے اور اسی کی جڑ میں بے رحم بجلی گرنے کے عوامل بھی ہیں۔ جیسے جیسے آب و ہوا تبدیل ہو رہی ہے، بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک اور بات، بجلی گرنا آب و ہوا میں تبدیلی کا برا نتیجہ تو ہے لیکن زیادہ بجلی گرنے سے آب و ہوا میں تبدیلی کے عمل کو بھی رفتار ملتی ہے۔ یاد رہے کہ بجلی گرنے کے دوران نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتی ہے اور یہ ایک مہلک گرین ہاؤس گیس ہے۔ حالانکہ ابھی دنیا میں بجلی گرنے اور اس کی آب و ہوا میں تبدیلی پر ہونے والے اثرات کی تحقیق بہت محدود ہے لیکن بہت سی اہم تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی نے بجلی گرنے کے خطرے کو بڑھایا ہے۔ اس سمت میں مزید گہرائی سے کام کرنے کے لیے گلوبل کلائمٹ آبزرونگ سسٹم (جی سی او ایس)کے سائنس دانوں نے عالمی موسمیاتی تنظیم(ڈبلیو ایم او)کے تعاون سے ایک خصوصی ریسرچ ٹیم (ٹی ٹی ایل او سی اے)کی تشکیل کی ہے۔
زمین کے روزانہ بدلتے ہوئے درجۂ حرارت کا راست اثر فضا پر پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے شدید طوفان بھی بنتے ہیں۔ بجلی کا راست تعلق زمین کے درجۂ حرارت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ جیسے جیسے زمین گرم ہو رہی ہے، بجلی کی لپک اور زیادہ ہو رہی ہے۔ یہ بھی جان لیں کہ بجلی گرنے کا راست تعلق بادلوں کے اوپری ٹروپوسفیرک یا ٹروپوسفیرک آبی بخارات اور ٹروپوسفیرک اوزون کی پرتوں سے ہے اور دونوں ہی خطرناک گرین ہاؤس گیسیں ہیں۔ آب و ہوا میں تبدیلی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں اگر آب و ہوا زیادہ گرم ہوتی ہے تو گرج دار طوفان کم لیکن تیز آندھیاں زیادہ آئیں گی اور ہر ایک ڈگری گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین تک بجلی گرنے کی تعداد میں10 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے سائنس دانوں نے مئی 2018 میںکرۂ ہوا کو متاثر کرنے والے جزو اور بجلی گرنے کے تعلق پر ایک ریسرچ کی جس کے مطابق، آسمانی بجلی کے لیے دو اہم اجزا کی ضرورت ہوتی ہے: تینوں حالتوں(مائع، ٹھوس اور گیس) میں پانی اور برف بنانے سے روکنے والے گھنے بادل۔ سائنس دانوں نے 11 مختلف موسمیاتی ماڈلوں پرتجربے کیے اور پایا کہ مستقبل میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی نہیں آئے گی جس کا راست نتیجہ یہ ہوگا کہ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔
ایک بات قابل غور ہے کہ حال ہی میں جن علاقوں میں بجلی گری، ان کا ایک بڑا حصہ دھان کی کاشت کا ہے اور جہاں دھان کے لیے پانی جمع ہوتا ہے، وہاںسے گرین ہاؤس گیس جیسے میتھین کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ موسم جتنا زیادہ گرم ہوگا، جتنی زیادہ گرین ہاؤس گیس خارج ہوگی، اتنی ہی زیادہ بجلی، زیادہ طاقت سے زمین پر گرے گی۔
’جیو فزیکل ریسرچ لیٹرس‘ نامی آن لائن جریدے کے مئی 2020 کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ال نینو- لا نینا، بحر ہند ڈائے اور جنوبی اینیولر موڈ کے آب و ہوا کی تبدیلی پر اثرات اور اس سے جنوبی نصف کرہ میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کے برے اثرات کے طور پر زیادہ آسمانی بجلی گرنے کے اندیشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
معلوم ہو کہ مانسون میں بجلی کا چمکنا بہت عام بات ہے۔ بجلی تین طرح کی ہوتی ہے- بادل کے اندر کڑکنے والی، بادل سے بادل میں کڑکنے والی اور تیسری بادل سے زمین پر گرنے والی۔ یہی سب سے زیادہ نقصان کرتی ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے بادل عام طور پر تقریباً 10-12 کلومیٹر کی اونچائی پر ہوتے ہیں جن کی بنیاد زمین کی سطح سے تقریباً 1-2 کلومیٹر اوپر ہوتی ہے۔ سطح پر درجۂ حرارت -35 ڈگری سیلسیئس سے -45 ڈگری سیلسیئس تک ہوتا ہے۔ واضح ہو کہ جتنا درجۂ حرارت بڑھے گا، اتنی ہی بجلی پیدا ہوگی اور گرے گی۔
فی الحال ہمارے ملک میں بجلی گرنے کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنا چاہیے جیسے کہ کس موسم میں، کن مقامات پر یہ آفت آ سکتی ہے، اگر ممکنہ صورت حال ہو تو کیسے اور کہاں پناہ لیں،لائٹنگ کنڈکٹر کا زیادہ سے زیادہ استعمال وغیرہ کچھ ایسے اقدام ہیں جن سے اس کے نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑی بات دور دراز کے علاقوں تک عام آدمی کی شمولیت پر بات کرنا ضروری ہے کہ کیسے گرین ہاؤس گیسوں کو کنٹرول کیا جائے اورآب و ہوا میں غیرمتوازن تبدیلیوں کو قابو کیا جاسکے، ورنہ سمندری طوفان، آسمانی بجلی، بادل پھٹنے جیسے تباہ کن واقعات میں ہر سال اضافہ ہوتا جائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS

1 COMMENT

Comments are closed.