لبرلائزیشن کے 30 برس

0

آج 24 جولائی، 2021کو لبرلائزیشن کے کامیاب 30 برس پورے ہو گئے۔ آج ہی کے دن 1991 میں اس وقت کے وزیرخزانہ منموہن سنگھ نے نرسمہا راؤ کی حکومت میں لبرلائزیشن کی ابتدا کی تھی تو شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ آنے والے وقت میں اس کی وجہ سے انقلابی تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ کہنا درست ہے کہ اس وقت کے وزیر خزانہ، جو بعد میں وزیراعظم بھی بنے، منموہن سنگھ نے وطن عزیز کی ترقی کے لیے لائسنسی راج ختم کرنے کی ایک اچھی ابتدا کی تھی۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو شاید آج ہم 5ٹریلین ڈالر کی اکنامی کا خواب نہیں دیکھ رہے ہوتے۔ کہنا یہ بھی درست ہے کہ نرسمہا راؤ حکومت کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کی پالیسیوں میں مناسب تبدیلیوں نے ہی دنیا کے لیے ہندوستان میں تجارت کے دروازے کھولے اور ہندوستان کے لوگوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے عالمی مارکیٹ میں دھاک جمائیں، وطن عزیز کو مستحکم بنائیں لیکن کیا نرسمہاراؤ حکومت کی یہ لبرلائزیشن، گلوبلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کی ہی پالیسی تھی جس نے ہندوستان کو یہاں تک پہنچایا؟ اس سوال کا جواب ایک جملے میں دینا مشکل ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ لبرلائزیشن، گلوبلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کی پالیسی سے دنیا کو یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ ہندوستان وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہو رہا ہے، اس نے دنیا کے لیے اپنے یہاں امکانات کے دروازے اس امید میں کھولے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک بھی اس کے تئیں فراخ دلی کا مظاہرہ کریں گے، اس کی طرح وہ بھی سمجھیں گے کہ حالات کی تبدیلیوں سے نبردآزماہونے کے لیے مختلف سوچ و نظریے والے ملکوں کا ایک ساتھ تجارت کرنا ضروری ہے، کیونکہ دنیا کو رہنے کے لیے بہتر سے بہتر جگہ بنانا ضروری ہے اور اسے بہتر جگہ بنانے کے لیے دنیا کے سبھی لوگوں کی خوش حالی ضروری ہے جبکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ خوش حالی بغیر اقتصادی ترقی و استحکام کے نہیں آتی۔
ہندوستان نے 30 برس میں کتنی ترقی کی ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس عرصے میں ہندوستان کی اقتصادیات میں 33 گنا اضافہ ہوا ہے۔ 1991 میں ہندوستان کی اقتصادیات 5.86لاکھ کروڑ روپے تھی، آج یہ 194.81 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ 1991 میں ہندوستان کے پاس غیر ملکی زر مبادلہ 5.80 ارب ڈالر تھا جبکہ 16 جولائی، 2021 تک یہ بڑھ کر 612.73 ارب ڈالر ہو گیا تھا۔ قابل ذکر یہ ہے کہ وطن عزیز کی اس ترقی کو دنیا بھر کے ملکوں نے محسوس کیا ہے اور اسی لیے چین کی توسیع پسند پالیسی کے خلاف کسی ملک کی طرف امید بھری نظروں سے وہ دیکھتے ہیں تو وہ ہندوستان ہے، قابل ذکر یہ بھی ہے کہ وطن عزیز کی ترقی کو اس کے کے ہر طبقے کے لوگوں نے بلا امتیاز محسوس کیا ہے، کیونکہ پچھلے 30 برس میں مفلسی کم ہوئی ہے، بے روزگاری کی شرح گھٹی ہے تولوگوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آمدنی میں اضافے کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ1991 میں ہندوستان میں رہنے والوں کی فی کس آمدنی 538 روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی جبکہ آج ہندوستان کے لوگوں کی ماہانہ فی کس آمدنی 12,140 روپے ہے، البتہ 30 برس کے عرصے میں کئی اشیائے ضروریہ میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں رسوئی گیس کی ہی مثال لے لیجیے۔ 1991 میں ایک سلینڈر کی قیمت 67.9روپے ہوا کرتی تھی جبکہ آج یہ 834.5 روپے میں ملتا ہے۔ دودھ اس وقت 5.5روپے فی لیٹر ہوا کرتا تھا جبکہ آج ایک لیٹر دودھ 48 روپے میں ملتا ہے۔ اس وقت پٹرول 14.6 روپے فی لیٹر ہوا کرتا تھا جبکہ آج دلی میں یہ 101.8روپے فی لیٹر ہے، ملک کے دیگر شہروں میں اور بھی مہنگا یا سستا ہوسکتا ہے، البتہ 1991 سے اگر آج کا تقابل کیا جائے تو ایئر ٹکٹ کی قیمت زیادہ نہیں بڑھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جتنی تبدیلی آئی، کیا اس کا کریڈٹ 1991 میں ہندوستان کے وزیراعظم نرسمہا راؤ اور وزیرخزانہ منموہن سنگھ کو ہی دینا چاہیے؟ سوال یہ ہے کہ کریڈٹ زیادہ کسے دینا چاہیے، نرسمہا راؤ کو یا منموہن سنگھ کو؟ ان سوالوں کے جواب پچھلے 30 سال کے اور اس سے پہلے آزادی سے 1991 تک کے حالات پر غور کیے بغیر نہیں دیے جاسکتے۔ لبرلائزیشن، گلوبلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کی ابتدا نرسمہا راؤ حکومت کی مدت کار میں ضرور ہوئی مگر اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ بعد کے سبھی وزرائے اعظم نے ہندوستان کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے بہت زیادہ تشہیر کیے بغیر ’پردھان منتری گرام سڑک یوجنا‘ کے تحت شہروں سے گاوؤں کو جوڑ کر وہاں تک ترقی پہنچائی تو منموہن سنگھ نے عالمی کساد بازاری سے ہندوستان کو بچانے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح وزیراعظم نریندر مودی کی ’آتم نربھربھارت‘ پالیسی ہندوستان کی دِشا اور دَشا بدلنے والی ہے لیکن اس کے لیے وقت چاہیے، اس لیے کہنا یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندوستان کو ہمیشہ ہی اچھے لیڈر ملے اور اسی لیے لبرلائزیشن، گلوبلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن پالیسی کامیاب ہو سکی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS