اصلاح سیرت نبوی کی روشنی میں

0

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور

انسانوں سے غلطی ہونا فطری بات ہے ۔انسان غلطیوں اور خطاؤں کا مرکب ہے۔غلطی ہونا،بھول جانایہ حقیقت ہے سب کے ساتھ یہ قدرتی امر لگا ہوا ہے،کسی کے ساتھ کم تو کسی کے ساتھ زیادہ،مذہب اسلام نے جس طرح ہر خرابی کی بھلائی کے طریقے بتائے ہیں اسی طرح غلطی ہوجانے سے کیا کرنا ہے،کیا نہیں کرنا ہے اس کی تعلیم بھی دی ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایاکہ : ہم نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک آدمی آیا، اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا۔ فرمایا : کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے مباشرت کرلی۔ رسول اللہ نے فرمایا: کیا تمہیں ایک غلام دستیاب ہے جسے تم آزاد کردو؟ اس نے عرض کیا :جی نہیں۔فرمایا: کیا تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو ؟ اس نے کہا : جی نہیں۔ فرمایا: کیا تمہارے پاس اتنا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟اس نے کہا : جی نہیں۔ رسول اللہ وہیں تشریف فرما رہے۔ اسی اثنا میںنبی اکرمؐ کی خدمت میں ایک ٹوکرا پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا : سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہوں۔ فرمایا: یہ لے کر صدقہ کردو۔ وہ بولا: اللہ کے رسول! کیا اپنے سے زیادہ غریب آدمی پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم! سنگریزوں والے دونوں قطعات کے درمیان (یعنی پورے مدینہ میں) مجھ سے غریب گھر موجود نہیں۔ نبی اکرمؐ کھل کر مسکرائے حتی کہ آپ ؐ کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ پھر فرمایا: اپنے گھر والوں کو کھلا دینا (صحیح بخاری)۔
بخاری میں حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرا کسی آدمی سے جھگڑا ہو گیا، اس کی ماں عجمی تھی۔ میں نے اس کو ماں کا طعنہ دیا، اس نے نبی اکرمؐ کو بتایا۔ حضورؐنے فرمایا: فلاں شخص سے تمہاری گالی گلوج ہوئی؟ میں نے کہا : جی ہاں۔فرمایا: تم نے اس کی ماں کو بُرا بھلا کہا؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا: تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ میں نے کہا: اس بڑھاپے میں بھی؟ فرمایا: ہاں۔ وہ (غلام) تمہارا بھائی ہے جنہیں اللہ نے تمہارے قبضے میں دے دیا ہے۔ تو جس کے قبضے میں اللہ نے اس کے بھائی کو کیا ہو، اسے چاہیے کہ جو خود کھائے اسے کھلائے اور جو خود پہنے وہ اسے پہنائے اور اسے اس کام میں نہ لگائے جو اس پر غالب آ جائے(انتہائی دشوار) اور اگر اسے کسی ایسے کام میں لگائے جو اس پر غالب آئے تو اس کی ادائیگی میں اس کی مدد بھی کرے(صحیح بخاری)۔نبی اکرم ؐنے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بلایا اور تمہید اور پوری صراحت سے یہ بات فرمادی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ صحابی ؐ اس کو قبول کر لیں گے۔ صراحت ایک مفید ذریعہ ہے جس میں وقت بھی کم لگتا ہے اور محنت بھی زیادہ نہیں کرنی پڑتی اور اصل مقصد بھی بڑی سہولت سے واضح ہو جاتا ہے۔بعض اوقات غلطی کرنے والا من گھڑت اور ناقابل قبول وجوہات تراش کر اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ خصوصاً جب کہ معاملہ اچانک ظاہر ہو جائے اور وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہ ہو۔ بعض اوقات چھوٹا بہانہ کرتے ہوئے زبان اٹکتی ہے۔ خاص طور پر جب آدمی صاف دل والا ہو اور اسے جھوٹ بولنا نہ ا ٓتا ہو۔
سیرت رسولؐ میں تربیت کا ایک عمدہ درس ہے اور ایسے پُر حکمت طریق کار کی مثال ہے جس سے مطلوبہ نتیجہ حاصل ہوتاہے۔احادیث رسولؐ سے تربیت کے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں۔مربی کی ایک ہیبت ہے، چنانچہ جب وہ غلطی کے مرتکب کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ شرم محسوس کرتا ہے۔مربی کے سوالات باوجود مختصر ہونے کے اور مربی کی نظریں بہت کچھ سمجھا دیتی ہیں اور ان کا دل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔من گھڑت عذر جس میں واضح خلل اس کو غلط ثابت کر رہا ہے، اسے سن کر بحث نہ کرنا اور عذر کرنے والے سے اعراض کر لینا، یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے کہ اس کا عذر قبول نہیں ہوا اور یہ چیز اسے توبہ اور معذرت کی طرف مائل کرتی ہے۔ اچھا مربی وہ ہے جو غلطی کرنے والے کے دل میں حیا کا احساس بھی پیدا کردے۔ جب غلطی کا مرتکب اپنا موقف تبدیل کر لیتا ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کا معترف ہے اور اس سے رجوع کر رہا ہے۔qq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS