یوگا ایک جسمانی و روحانی ریاضت: ڈاکٹر شارد جمال انصاری

0

ڈاکٹر شارد جمال انصاری
دنیا کی تخلیق کا بنیادی محور حرکت اور گردش ہے۔ کائنات کی ہر چیز میں حرکت پنہاں ہے خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی۔ ارض کائنات، ارض و سماں، نجوم و کواکب، شمس و قمر، افلاک و اجرام، خلا و فضا حتی کہ انسان و حیوان، چرند و پرند، حشرات الارض، کیڑے مکوڑے ہر جاندار میں حرکت و گردش کی ایک حس پوشیدہ ہوتی ہے اور اسی سے اس کا وجود قائم و دائم ہے۔ حرکات و سکنات کی منفرد خصوصیات مختلف النوع جاندار کی نسلی شناخت کے ساتھ اس کی ذات میں پنہاں ہے اور اسی سے اس کا وجود قائم ہے۔ اسی طرح انسان اپنی زیست کی بقا کے لیے جو حرکات کرتا ہے اسی میں اس کی بقا مضمر ہے۔ تلاش روزگار، تخلیق و اختراع اور ایجادات، رنگ و آہنگ، ہنر و فنون، نقل مکانی، مستقر و ہجرت، سکونت و مکانت کے جو بھی اقدامات ہیں اس میں ایک گردش اور حرکت پائی جاتی ہے اور اس طرح نسل نوع انسان اور دوسری مخلوقات دنیا کے ہر ایک گوشہ میں پائی جاتی ہے۔ وجود کائنات کے عمل میں حرکت کا بہت بڑا دخل ہے۔ وہ حرکت ازل تا ابد قائم رہنے والی ہے اسی حرکاتی عمل کو کسرت و ورزش اور یوگ سے وابستہ کیا جاتا ہے۔
انسانی زندگی میں یوگ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ وجود کائنات ہی حرکت اور گردش کے اصول پر قائم ہے ظاہر ہے تخلیق انسان کا وجود بھی یہی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہنے والا ہے۔ یوگ سے انسانی زندگی کو تقویت ملتی ہے، جسمانی کسرت سے انسان اپنے جسم میں مخصوص قسم کی تازگی و توانائی پیدا کرتا ہے۔ ورزش کے ذریعہ اعضائے ابدان کو سکون اور راحت ملتی ہے اور رگ و ریشہ میں لہو سرعت رفتار کے ساتھ اجزائے اجسام کو بھرپور غذائی مادہ بہم پہنچاتے ہیں اور خلیہ کے خفیف خانہ تک رسائی بہم پہنچاتے ہیں۔ جس طرح اشیائے خوردنی انسانی زندگی کے لیے اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح یوگ بھی انسانی اعضا کی صحت مندی کے لیے بہت ضروری ہیں اور یہ فضا میں موجود جرثومہ، متعدی اور غیر متعدی امراض سے نبردآزما ہونے کی قوت بخشتا ہے۔ یوگ کی ایک خاص بات ہے کہ اس کو ریاضت کے درجہ میں رکھا گیا ہے۔ جسمانی قوت تو ملتی ہی ہے ساتھ میں عرفانی قوت بھی ملتی ہے اور اس سے معرفت کی شناخت بھی کی جاتی ہے۔ یوگ ایک ایسا عمل ہے جس کے ضوابط و نظم کی پیروی کرنے والااور اس کے اصول و قواعد پر زندگی بسر کرنے والا شخص یوگی یا جوگی کہلاتا ہے جو ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کا ایک بہت قدیم اور اہم حصہ ہے۔
کائنات کی عمر تعیین کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن دعویٰ کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا تخلیقی عمل لاکھوں سال پہلے شروع ہو گیا تھا اور ایسے وقوعات اور حادثات رونما ہوتے رہے اور گردش کا عمل رواں دواں رہا اور اس کے وجود میں آنے کے عمل کو لے کر فلسفہ اور سائنس آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ لیکن یہ بات عیاں ہے کہ یوگ اس پر روشنی ڈالنے کا اہتمام رکھتا ہے کیوں کہ جو اس کے اصول کو اپنے دل و دماغ پر تربیت کر لیتے ہیں وہ اس کے قدرتی مناظر کی فہم و ادراک حاصل کر لیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 11/دسمبر 2014 کو ہر سال 14/ جون کو ’عالمی یوم یوگا‘منانے کا فیصلہ لیا اور وزیر اعظم نریندر مودی نے 14/دسمبر 2014 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اس کا عندیہ دیا۔
یوگا ہندوستان کا ایک قدیم ترین علم اور فن ہے ایک عمومی جائزہ کے مطابق اس کی تاریخ تقریباً 6000 سال پرانی ہے۔ اس علم کے ذریعہ سے انسان اپنے جسم، ذہن اور روح کی مشق کرتا ہے۔
علم یوگ کا تعلق ہندوستان کی مقدس سر زمین سے ہے اور یہیں کی اختراع ہے، اس کے ذریعہ جسمانی، ذہنی اور روحانی مشق کے ذریعہ راہ معرفت کی شناخت کی جاتی ہے۔ اس کو تپسا اور ریاضت کا مرتبہ حاصل ہے اور تصوف کی اصطلاح میں اس کومراقبہ کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں کی مقدس کتاب وید، اپنشد، پران، اتہاس اور درشن وغیرہ میں بے شمار ایسے شواہدات ملتے ہیں جو اس بات کا مظہر ہیں کہ یہ علم اور ہنر زمانہ قدیم یعنی ویدک عہد کی ایجادات و اختراعات ہیں۔
یوگ زبان سنسکرت کا لفظ ہے اور اس لفظ نے بہت وسیع معنی کا احاطہ کیا ہوا ہے اس لیے یہ کہنا کہ لفظ یوگ کا لفظی یا لغوی معنی صرف ’ضابطہ و اصول‘ یا ’نظم و ضبط‘ درست نہ ہوگا بلکہ ’شبد ساگر‘ نے اس لفظ کے تحت 38 معنی قائم کیے ہیں۔ سب سے پہلا معنی جوڑ تو آخری معنی چھ فلسفہ میں سیا یک فلسفہ ہے اور اس کے ذریعہ اپنی ذات کو وحدت میں ضم کردینا ہے۔
ہندوستانی ویدانتی مذاہب میں اس علم کو ایک خاص مقام حاصل ہے، چوں کہ اس کے بنیادی اصول و ضوابط آشرم میں وضع کیے گئے اور اس کی تشکیل و اشاعت میں ان اداروں کا اہم کردار رہا ہے اس لیے اس کو مذہب سے وابستہ کر کے اس کو تقدس فراہم کیا گیا اور اس پر عمل کر کے بندہ اپنی ذات کو وحدت میں فنا کر دیتا ہے۔ رشی، منی اور سنتوں کا ایک خاص طبقہ ہے جس نے اس علم کو جلا بخشی اور اس طرز پراس کو فروغ بخشا کہ یہ براہ راست ویدیہ یعنی علم طب سے جڑ گیااور صحت انسانی سے منسلک ہو گیا۔ ہر مرض خواہ وہ جسمانی یا روحانی ،اس کے علاج کا ورزشی نظام مداوا پیش کیا اور اس کو جسمانی تندرستی و توانائی فراہم کرنے ذریعہ بنا یا۔
پچھلی دہائیوں میں یہ علم تعصب کا شکار رہا اور اس کو مذہبی عمل اور ورزشی مفروضہ قرار دیا گیا اور اس کی جسمانی صحت کے اہمیت و افادیت کی جگہ مذہبی عقیدت نے لے لی تھی اور اس کو بہت نقصان پہنچایا۔ لیکن موجودہ دور میں اس کی تبلیغ و اشاعت نے اس کو جلا بخشی اور آج پورا عالم اس نظام کا قائل ہے اور متعدد دجامعات اور دانش گاہوں میں بطور علم سائنس اور طب کے نصاب میں داخل ہے ۔ اس کا علم حاصل کر کے بے شمار ڈاکٹر اور دیگر ماہرین طب اس علم کے ذریعہ فیزیکل تھراپی دے کر لوگوں کو صحت اور تندرستی عطا کر رہے ہیں۔
قدیم روایات میں یوگ کا دوسرا نام ’سانکھیہ‘ بھی ہے اور سانکھیہ کی دو قسمیں قائم کی گئی تھیں ایک کپل سانکھیہ اور دوسرا پتنجلی سانکھیہ۔ ان دونوں میں بہت معمولی سا فرق ہے اور یہ فرق یوگ علم کے عالم یا ودوان ہی کر سکتے ہیں۔ ان کا فرق صرف نظری اور عملی ہے۔ کپل سانکھیہ وہ ہے جہاں ذہنی تصورات کا محور قائم کر کے لطیف مضامین قائم کیے گئے ہیں اور پتنجلی سانکھیہ نے اس کے ساتھ دل و دماغ کی تربیت کے ضابطہ کے ساتھ اس میں اضافہ کیا اور بھگوت گیتا (نغم یزدانی) میں اس کے تین درجے قائم کئے گئے ہیں 1: کرم یوگ، 2: بھکتی یوگ، 3: گیان یوگ اس عنوان پر بے شمار تصانیف و رسائل متعدد زبانوں میں تالیف کیے گئے۔ ویدانتی مذاہب میں ہندو، جین اور بدھ کے پیروکاروں نے اس پر عمل درآمد کیا۔ جالندھر کے شاگرد رشید گورتھ ناتھ نے ہٹ یوگ اور راج یوگ کے اصول و ضوابط قائم کیے پھر یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور بہت سارے جوگیوں نے اس کو درشن اور مذہب کے طور پر لیا اور یوگ کے عمل کو ریاضت اور عبادت کا درجہ دیا۔ قدیم روایتوں کے مطابق اس علم کی تپسیا اور ریاضت سے بے شمار کرامات و چمتکار وقوع پذیر ہوئے۔ بعد کے عہد میں کبیر، دادو اور نانک دیو جی جیسے سنت اور گروؤں نے اس کو سہج یوگ اور سرت شبد یوگ کا نام دے کر مخصوص طریقہ سے اس کے تعلیمی نصاب کو ترتیب دیا اور اس کو تعلیم سے جوڑ دیا اور یہ تعلیمی سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی صورت میں ہندوستان اور پورے عالم میں موجود ہے۔ اسی سلسلہ سے رادھا سوامی پنتھ کے قابل تعظیم بزرگ سوامی رائے سالگرام بہادر نے اس کو بام عروج بخشا۔
بے شمار کتابیں اس علم پر اردو زبان میں بھی موجود ہیں اس کے مطالعہ سے ہم اس کے ورزشی اور کسرتی اقدامات سیکھ سکتے ہیں۔ ریختہ کی ویب سائٹ پر بے شمار کتابیں مفت مطالعہ کے لیے موجود ہیں۔ جہاں بآسانی تلاش بھی کیا جا سکتا ہے۔ اچھا ہوگا کہ کچھ کتابوں کا نام یہاں ذکر کر دیا جائے۔ قدرتی صحت اور یوگ از ڈاکٹر برج بھوشن گوئل، یوگا اور حسن از اسما جاوید، یوگ ’فطری علاج کا ذریعہ از محمد بدرالاسلام، یوگ رشمی از رامیشور داس گپتا، پتنجلی کا فلسفہ یوگ از ہری کرشن داس گوئندکا، یوگ ابھیاس اور گائیتری جاپ از برہما نند، راج یوگ از سوامی وویکا نند، یوگ اور صحت از رام اوتار شرما، اوم یوگ آسن وپرانایام از اکھنڈا نند جی سرسوتی وغیرہ
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS