وشو گرو کے پائے چوبیں: عبدالماجد نظامی

0
وشو گرو کے پائے چوبیں: عبدالماجد نظامی

عبدالماجد نظامی

جب سے نریندر مودی کا انتخاب 2014 میں بطور وزیراعظم ہوا ہے تب سے ایک بات پر خاص توجہ رکھی گئی ہے کہ ہندوستان کو دنیا کے نقشہ پر وہ مقام دلایا جائے جس کا وہ حق دار ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ہندوستانی کے طور پر اس ملک کا ہر شہری یہ چاہے گا کہ نریندر مودی اپنے اس مشن میں کامیاب ہوجائیں تاکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جس کو اب سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونے کا امتیاز بھی حاصل ہے، اس کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کی باتوں کا وزن ہو، تاکہ وہ آج کی مشکلات میں الجھی ہوئی دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کر سکے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو نریندر مودی کا حالیہ دورۂ امریکہ یقینا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ2014سے قبل ان باہمی تعلقات کے لیے مضبوط بنیادیں نہیں رکھی گئی تھیں۔ بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ستمبر2008 میں جب سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں نیوکلیائی معاہدہ پر دستخط ہوئے اور اس کے نتیجہ میں نیوکلیئر سپلائرس گروپ نے ہندوستان کو اپنے خیمہ میں قبول کیا، اس خاص لمحہ کو ہند-امریکہ تعلقات کی تاریخ میں نقطۂ انعطاف یا ٹرننگ پوائنٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منموہن سنگھ نے اس تعلق سے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا تھا جس میں بتایا تھا کہ کئی دہائیوں سے ہندوستان کو نیوکلیئر مین اسٹریم سے الگ تھلگ رکھا جا رہا تھا اور ٹیکنالوجی کا اشتراک ہمارے ملک کے ساتھ نہیں کیا جا رہا تھا، اب اس کا دور ختم ہوگیا۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کا نیوکلیائی معاہدہ اس قدر اہم تھا کہ منموہن سنگھ سرکار نے بائیں بازو کی حلیف پارٹیوں کی سخت مخالفت کو جھیلنا گوارہ کیا لیکن اس معاہدہ سے پیچھے نہیں ہٹی۔ اس کی وجہ سے بائیں بازو کی پارٹیوں نے یوپی اے کو دی گئی اپنی حمایت بھی واپس لے لی تھی لیکن اس کے باوجود یہ معاہدہ ہوا اور اگلی بار2009میں یوپی اے کو عام انتخابات میں بائیں بازو کی مخالفت کا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس کانگریس پارٹی 2004 کے مقابلہ زیادہ سیٹوں پر فتحیاب ہوکر دوبارہ حکومت سازی میں کامیاب ہوگئی۔ منموہن سنگھ سرکار کی اُسی بنیاد پر نئی اینٹ رکھتے ہوئے نریندر مودی نے جون2016 میں امریکی کانگریس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان اور امریکہ نے تاریخ کی ہچکچاہٹوں پر قابو پا لیا ہے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں اپنے تعلقات کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنائیں۔ ان کوششوں کا مثبت نتیجہ نکلا۔ ٹیکنالوجی سے محرومی کے دور کے خاتمہ اور ’’تاریخ کی ہچکچاہٹوں‘‘ پر قابو بھی پا لینے کے بعد جوبائیڈن کے عہدۂ صدارت میں گزشتہ برس مئی 2022 کے اندر ایک اہم اقدام کیا گیا جس کا اعلان صدر بائیڈن اور وزیر اعظم نریندر مودی نے مل کر کیا تھا اور اس کو ’’کریٹیکل اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز‘‘ اقدام یاiCET کا نام دیا گیا۔ اسی اقدام کا آغاز جنوری2023 میں جیک سولوان اور اجیت ڈوبھال کی موجودگی میں ہوا۔ یہ اقدام اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے تحت دفاع، فضا، سیمی کنڈکٹر اور مصنوعی ذہانت یاArtificial Intelligence جیسے سیکٹرس میں ٹیکنالوجیز شیئر کی جا سکیں گی۔ لیکن نریندر مودی کے اس دورہ کی اہمیت صرف ٹیکنالوجی اور اقتصادی پہلوؤں سے ہی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک جیوپالیٹیکل پہلو بھی ہے۔ ہندوستان کے پالیسی سازوں کو اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ ورلڈ آرڈر میں بڑا بدلاؤ پیدا ہوچکا ہے۔ اب چین ایک ایسی مضبوط طاقت بن کر ابھرا ہے جو نہ صرف امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے بلکہ خود ہندوستان کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے جیسا کہ گزشتہ چند برسوں میں ہند و چین سرحدوں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس چیلنج کا ایک دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ روس جو اب تک ہندوستان کو دفاعی آلات سپلائی کرنے والا سب سے اہم ملک ہے، چین کا جونیئر پارٹنر بن چکا ہے۔ ایسی صورت میں اگر دفاعی معاملوں میں روس پر انحصار برقرار رکھا گیا اور مستقبل میں کبھی ہند و چین کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں اور چین کے اشارہ پر روس جنگی آلات عین ضرورت کے وقت مہیا نہیں کرتا ہے تو یہ صورتحال ہندوستان کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگی۔ اسی لیے ہندوستان نے بھی ضروری سمجھا کہ اب سرد جنگ کی ذہنیت سے باہر آنے کا وقت آگیا ہے اور اس نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کرتے ہوئے کسی ایک ملک پر مکمل انحصار کو ختم کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کو بڑھانا اسی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ ایک دہائی قبل تک ہندوستان اپنی دفاعی ضرورتوں کا تقریباً 60فیصد سامان روس سے حاصل کرتا تھا جو اب گھٹ کر45 فیصد رہ گیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ سب سے بڑا سپلائر بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ روس-یوکرین جنگ نے امریکی دفاعی آلات کے مقابلہ روسی ہتھیاروں کی کمزوری کو دنیا کے سامنے آشکار کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں امریکہ کے ساتھ اپنے اسٹرٹیجک تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے بہتر دفاعی آلات ان سے حاصل نہ کرنا عقلمندی نہیں ہوگی۔ امریکہ کو بھی ہندوستان کے ساتھ مضبوط تعلقات کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ہندوستان کو۔ یہ تعلقات صرف چین کے خلاف ایک مضبوط ایشیائی حلیف کے طور پر ہی ضروری نہیں ہیں بلکہ خود امریکی کمپنیوں کے لیے ایک بڑے بازار کی شدید حاجت کے طور پر بھی ہیں اور بھلا اس کام کے لیے ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک ہندوستان سے بہتر آپشن کیا ہوسکتا ہے۔ لیکن اس شور و ہنگامہ سے پرے ایک دوسری تلخ حقیقت بھی ہے جس پر ہندوستان کو بطور خاص توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ اگر مشترک قدروں کی بنیاد پر یہ تعلقات امریکہ کے ساتھ قائم کیے جا رہے ہیں جیسا کہ دعوے کیے جا رہے ہیں تو آخر وہ مشترک قدریں کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ قدریں لبرل جمہوریت، انسانی حقوق، میڈیا اور پریس کی آزادی، رائے کی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہیں۔ یہی وہ قدریں ہیں جن کی حفاظت کی صورت میں ہی ہندوستان وشو گرو بننے کا اپنا وہ دیرینہ خواب پورا کر سکتا ہے جس کی تعبیر کی فکر کم سے کم مودی عہد میں شدت اختیار کرچکی ہے۔ لیکن کیا زمینی حقائق اس بات کی طرف اشارے کر رہے ہیں کہ مذکورہ بالا قدروں کو مودی کے دور اقتدار میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے؟ سچ تو یہی ہے کہ جمہوری قدریں پامال ہوئی ہیں، آزادیٔ رائے پر قدغن لگائے گئے ہیں اور اقلیتوں کے سامنے مسائل کا انبار کھڑا کر دیا گیا ہے اور مستقبل میں مزید آزمائشیں ان کی منتظر ہیں۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اگر امریکہ کے ساتھ اقتصادی اور دفاعی محاذوں پر بہتر تعلقات قائم ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ہندوستان کا قد عالمی برادری کے درمیان اونچا ہوپائے گا؟ ہوسکتا ہے کہ صدر بائیڈن اپنے مہمان مودی جی سے ان مسئلوں پر کچھ نہ پوچھیں جیسا کہ وہائٹ ہاؤس کے ایک بیان سے اندازہ ہو رہا ہے۔ لیکن کیا امریکی عوام اور وہاں کا دانشور طبقہ اس بات کو نظرانداز کر دے گا؟ جیسا کہ امریکی قانون سازوں نے صدر بائیڈن کو خط لکھ کر مودی جی کے سامنے ہندوستان میں انسانی حقوق کے مسائل اٹھانے کی اپیل بھی کی ہے۔ اسی طرح کیا دنیا کی باقی قومیں جو لبرل جمہوری قدروں اور انسانی حقوق جیسے معاملوں میں پختہ یقین رکھتی ہیں، وہ ہندوستان کو ایک معتبر جمہوری ملک کے طور پر قبول کریں گی؟ کیا یوکرین میں جنگ بندی کے لیے مودی جی اپنا کوئی کردار نبھا پائیں گے جب کہ وہ اپنے ملک میں ہی منی پور میں لگی آگ کو بجھانے میں ایک ماہ سے زائد مدت تک ناکام رہے ہیں اور وہاں جاری قتل و خون جیسے حساس مسئلہ پر کوئی بیان تک دینے سے پہلو تہی کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ کمزور کڑیاں ہیں جو ہندوستان کو عالمی سطح پر اونچا مقام حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کڑیوں کو مضبوط کیا جائے اور جمہوری قدروں کی آبیاری کی کوشش کی جائے ورنہ وشو گرو بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS