سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے حالات پر ایک اور رپورٹ آگئی ہے۔ اس رپورٹ سے بھی اویغوروں کے لیے ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوگی مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس طرح کی رپورٹوں سے ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ چین آج امریکہ کے بعد دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے، وہ سب سے زیادہ ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے، ایسی رپورٹیں آئی ہیں کہ 2028 تک وہ امریکہ کو اقتصادی محاذ پر پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا، اس کی بحری افواج کا شمار دنیا کی ٹاپ کی بحری افواج میں ہوتا ہے، ایسی صورت میں کون سا ایسا ملک ہے جو اویغور مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے چین سے ٹکرائے گا؟ 2019 میں کورونا وائرس کی وبا چین کے ووہان میں پیدا ہوئی تھی۔ شروع میں چین نے یہ چھپایا تھا کہ یہ وبا ایک متاثرہ آدمی سے دوسرے لوگوں کو لگتی ہے، اس وقت اس کی ہاں میں ہاں ڈبلیو ایچ او نے بھی ملائی تھی۔ اس کا خمیازہ امریکہ اور یوروپی ملکوں کے ساتھ دنیا بھر کے ملکوں کو بھگتنا پڑا ہے۔ لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور کورونا وائرس ابھی تک ختم نہیں ہوا اور ابھی تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا ہے کہ اس وبا کی اصل وجہ کیا تھی؟ یہ وبا پیدا کیسے ہوئی؟ ٹرمپ نے کورونا وائرس کے حوالے سے چین کو گھیرنے کی بہت کوشش کی تھی۔کورونا وائرس کو ’چینی وائرس‘ اور ’ووہان وائرس‘ جیسے نام دینے کی کوشش کی تھی مگر امریکہ کا ساتھ یوروپی ملکوں نے نہیں دیا تھا جبکہ وہ اگر امریکہ کا ساتھ دے دیتے تو چین کو گھیرنے میں آسانی ہو جاتی، کیونکہ اس وقت وہ بیک فٹ پر تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اتنے بڑے معاملے میں وہ چین کے خلاف موثر اقدامات نہیں کر سکے، اس سے بچتے رہے کہ چین سے رشتے میں تلخی نہ آئے،پھر ان سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ اویغور مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے چین کے خلاف وہ جائیں گے، اس پر پابندیاں عائد کریں گے، اسے یہ بتائیں گے کہ اس کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو وہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اس رپورٹ سے اسی طرح ایک بار پھر دنیا اویغوروں کے حالات سے واقف ہوگی جیسے پہلے کی رپورٹوں سے ہوتی رہی ہے مگر اس کی وجہ سے ان کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ اس کی وجہ سے چینی حکومت ان کے خلاف کچھ اور سخت ہو جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
مظلومین کو انصاف دلانے کے لیے اگر طاقتور ممالک اتنے ہی سنجیدہ ہوتے تو روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا، وہ پرامن زندگی بسر کرتے، کیونکہ میانمار اقتصادی یا دفاعی طور پر اتنا بڑا ملک نہیں ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کر سکے مگر جب میانمار کی حکومت کو اس بات کے لیے تیار نہیں کیا جا سکا کہ وہ روہنگیاؤں کو ان کے جائز انسانی حقوق دے، انہیں اپنے ملک کا شہری مانے، ووٹنگ کے حقوق دے، سہولتیں دے،ان کے جان و مال کی حفاظت کرے تو پھریہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ چینی حکومت کو اس بات کے لیے تیار کرنے میں کامیابی مل جائے گی کہ وہ اویغوروں کے ساتھ انصاف کرے، انہیں چین سے جینے دے، انہیں خواہ مخواہ مذموم وارداتوں میں پھنسانے کی کوشش نہ کرے؟ سچ تو یہ ہے کہ اویغوروں کو اپنے مسئلے کا حل خود ہی تلاش کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انہیں متحد ہونا پڑے گا اور انہیں چینی حکومت متحد ہونے نہیں دے گی مگر وہ اپنا حق حاصل کرنے کی ناتمام جدوجہد کے لیے جس دن تیار ہو جائیں گے، قربانیوں سے گھبرائیں گے نہیں، اس دن سے ان کی کامیابیوں کے نئے دنوں کی شروعات ہو جائے گی اور چینی حکومت یہ احساس کرنے پر ضرور مجبور ہوگی کہ حکومتیں انصاف سے چلتی ہیں، جبر و تشدد سے نہیں۔ کتنی بڑی بھی طاقت ہو،خود اس کا اپنا ظلم اسے کھوکھلا کر ہی دیتا ہے۔n
کیا رپورٹوں سے حالات بدلیں گے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS