مسلم ممالک خاموشی ہی احتجاج ہے!

0

چینی صدر شی جن پنگ کوئی صدام حسین تو نہیں ہیں کہ ان کے خلاف مسلم ممالک متحد ہو جائیں گے،کیونکہ چین بھی عراق نہیں ہے۔ خود امریکہ اور اس کے اتحادی چین کے خلاف اس طرح نہیں جا سکتے جیسے وہ عراق کے خلاف جانے کے لیے تیار ہوگئے جبکہ وہاں اس طرح کے مظالم نہیں ڈھائے جا رہے تھے جیسے مظالم سنکیانگ میں اویغوروں کے خلاف ڈھائے جا رہے ہیں اور اس کی رپورٹ خود امریکہ اوبر برطانیہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بڑے اداروں نے دی ہے، اقوام متحدہ کی اس سلسلے میں رپورٹ بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ سنکیانگ میں اویغوروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے، ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔
خیر، بات مسلم ممالک کی ہو رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے سے بنے اتنے مسلم ملکوں کا فائدہ کیا ہے اگر وہ انسانیت کے نام پر بھی روہنگیاؤں اور اویغوروں کی مدد نہیں کر سکیں؟ کیا ان کے اداروں کا مقصد صرف نشستیں منعقد کرنا ہی ہے؟ لگتا تو یہی ہے۔ اصل میں بیشتر مسلم ملکوں میں جمہوریت نہیں۔ انہیں اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی باتیں کرنے لگے تو پھر انہیں بھی جواب دینا ہوگا اور وہ اس پوزیشن میں ہیں نہیں کہ جواب دے سکیں۔ اسی لیے اپنے یہاں ذرا سے احتجاج کو برداشت نہیں کر پاتے۔ اگر کوئی احتجاج کرنے کی جرأت کرتا ہے تو اسے اتنی سخت سزا دی جاتی ہے تاکہ وہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائے۔ ایسی صورت میں بیشتر مسلم ملکوں کے لیڈروں کی مجبوری کو سمجھنا چاہیے اور ان کی خاموشی کو ہی احتجاج سمجھنا چاہیے، کیونکہ اس سے زیادہ وہ کچھ کر نہیں سکتے۔ اگر بہت ہمت دکھائیں گے تو ایک نپا تلا بیان دے دیں گے مگر اس بیان پر قائم رہیں، اس کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی، البتہ تیونس سے اٹھنے والی عوامی احتجاج کی لہر نے آج سے دس برس پہلے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ عام لوگ انصاف اور ظلم کا فرق جانتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے حکمراں صرف راج کرنا چاہتے ہیں، اس لیے حالات اگر اچانک بدلنے لگیں تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ تیونس میں البو عزیزی کی خودسوز کی کوشش سے پہلے کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ حالات اتنے بدلیں گے کہ زین العابدین بن علی، حسنی مبارک،علی عبداللہ صالح کو گدی اور کرنل قذافی کو جان گنوانی پڑے گی۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS