سعودی-ایران رشتوں پر جمی برف پگھلے گی؟

0

عباس دھالیوال

گزشتہ قریب چار دہائیوں سے سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور ایران گزشتہ کئی برسوں سے لبنان، عراق اور یمن میں ایک دوسرے کے خلاف درپردہ جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ حالیہ برسوں میں دونوں کے تعلقات میں کشیدگی اس وقت آگئی تھی جب سعودی عرب کی جانب سے 2016 میں ملک میں شیعہ اقلیت پر سب سے زیادہ رسوخ رکھنے والے عالم دین شیخ نمر النمر کو ’دہشت گردی‘ اور ’بغاوت‘ کے الزام میں مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی لگا دی گئی تھی جس کے نتیجے میں تہران میں ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے سعودی سفارتخانے کو آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے بیچ سفارتی تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ ایران کے اتحادی یمنی حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے بھی تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بنے۔
ستمبر 2019 میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل کی ایک بڑی تنصیبات پر ڈرون حملے کے باعث ملک کو اپنی تیل کی پیداوار کا 50 فیصد کم کرنا پڑا تھا۔ سعودی عرب نے اس حملے کا ذمہ دار تہران کو ٹھہرایا تھا جبکہ ایران نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے والی جو خبریں سامنے آرہی ہیں، وہ یقیناخطے کے لیے نیک فال کہی جا سکتی ہیں۔گزشتہ دنوں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے انٹرویو سے جو تاثرات ابھر کر سامنے آئے ہیں، ان سے ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی دونوں ممالک کے رشتوں پر جمی برف پگھل سکتی ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ کہنا کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے اور ہم ایران کے ساتھ اچھے اور خاص تعلقات کے خواہاں ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اشارہ ہے کہ وہ رشتوں کو استوار کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات دراصل ایک پیش رفت ہے۔
ولی عہد کا مذکورہ بیان ایسے وقت میں آیا جبکہ سعودی عرب اور ایران کے افسران کے درمیان عراق میں ایک خفیہ ملاقات کی خبروں کے چرچے زوروں پر ہیں۔ بھلے ہی اس ضمن میں سعودی عرب نے اس طرح کی ملاقات والی خبروں سے انکار کیا ہو لیکن جہاں تک ایران کا سوال ہے تو اس نے نہ تو ایسی کسی ملاقات سے انکار کیا ہے اور نہ ہی اقرار بلکہ ان کے وزیر خارجہ کا تو یہی کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ اس ملاقات کے ضمن میں ’اے ایف پی‘ نے عراق کے ایک افسر کے حوالے سے یہاں تک کہا ہے کہ یہ ملاقات عراق کے وزیراعظم کے تعاون سے ہی ممکن ہو پائی ہے۔

سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کی حالت اور خراب ہو بلکہ ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایران خود ترقی کرے اور پورے علاقے کو اور دنیا کو خوشحالی کی طرف گامزن کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ کی ترقی میں مدد گار بنے۔ جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام، میزائل پروگرام اور پابندی پر ایران کا رویہ منفی ہے۔

محمد بن سلمان کے متذکرہ انٹرویو کی بات کریں تو سعودی ولی عہد نے اپنے قومی ٹی وی چینل کو دیے اس انٹرویو کے دوران شاید پہلی بار ایران، یمن اور امریکہ سے اپنے تعلقات پر کھل کر بات کی تھی۔ اس دوران ولی عہد کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کی حالت اور خراب ہو بلکہ ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایران خود ترقی کرے اور پورے علاقے کو اور دنیا کو خوشحالی کی طرف گامزن کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ کی ترقی میں مدد گار بنے۔ جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام، میزائل پروگرام اور پابندی پر ایران کا رویہ منفی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ مسائل پر سعودی عرب اپنے علاقائی اور عالمی ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
ولی عہد نے امید ظاہر کی کہ ہم ان مشکلات کا حل بھی تلاش کر لیں گے اور ایران کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کریں گے۔یقینااس سے سبھی کو فائدہ پہنچے گا جبکہ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اس سے قبل ولی عہد نے جب کبھی بھی انٹرویو دیا ہے تو وہ اکثر ایران کو خطے کے امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ وہیں مذکورہ انٹرویو میں ان کے لہجے میں کافی زیادہ تبدیلی نظر آئی۔ اس انٹرویو میں ولی عہد نے امریکہ پر بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے کہ بے شک امریکہ سعودی عرب کا جنگی ساتھی ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ سے کچھ معاملات میں سعودی عرب کے اختلافات ہیں جن کو وہ حتی الامکان دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب اپنے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کے دباؤ یا دخل اندازی کو قطعاً قبول نہیں کرے گا۔
یہ واضح ہو کہ ماہرین کی نظر میں 2017 میں ولی عہد بننے والے محمد بن سلمان ہی سعودی عرب کے اصل حکمراں ہیں۔ ولی عہد بھارت، روس اور چین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ بھارت سے سعودی عرب کی گہری دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دنوں کورونا وائرس کے معاملوں میں غیر معمولی اضافے کے مدنظر سعودی عرب نے 80 میٹرک ٹن مائع آکسیجن ہندوستان بھیجی تھی۔ خیر، یمن میں جاری جنگ پر امریکہ اور سعودی عرب میں اختلافات پائے جاتے ہیں جبکہ کچھ خبروں کے مطابق، یمن میں حوثیوں کی ایران حمایت کرتا ہے اور یمن سرکار کے ساتھ مل کر جو فوجی اتحاد ہے، اس کی رہنمائی سعودی عرب کرتا ہے۔ یمن کے حوالے سے ولی عہد کا کہنا تھا کہ کوئی بھی سرکار اپنی حدود پر مسلح تنظیموں کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی۔ سیاسی ماہرین دراصل یمن میں جاری جنگ کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک ’پراکسی وار‘ کے طور پر دیکھتے ہیں مگر گزشتہ کئی برسوں سے چل رہی یمن جنگ سے اب کہیں نہ کہیں سعودی عرب تنگ آ چکا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی گزشتہ ماہ سعودی عرب نے یمن میں جنگ بندی کی پیش کش کی تھی لیکن حوثی باغیوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ اس حوالے سے ولی عہد کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایران کے ساتھ حوثی باغیوں کے مضبوط تعلقات رہے ہیں لیکن حوثی یمنی ہیں اور عربی نسل کے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اپنے ملک کی ترجیحات پر سب سے زیادہ توجہ دیں گے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عراقی صدر برہم صالح نے عرب میڈیا کو بتایا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات نہ صرف بغداد بلکہ پورے خطے کے لیے ثمر آور ثابت ہوں گے۔صدر عراق کا کہنا تھا کہ خطے کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان مصالحت کے لیے عراق اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور عراقی مصالحت کار پس منظر میں رہ کر ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی مصالحت کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کا کہنا ہے کہ دیگر باتوں کے علاوہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ ایران، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی سے 2015 میں طے کیے گئے جوہری معاہدے پر عمل کرے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ اس معاہدے کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔وہیں ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معمول کے تعلقات دیکھنے کے خواہاں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقت میں امریکہ، ایران، یمن اور ترکی پر سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔rtq
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS