جی ایس ٹی اور ہندوستان کا ٹیکس نظام

0

سراج الدین فلاحی

چند روز قبل ایک طویل عرصے کے بعدجی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ ہوئی جس میں کووِڈ ریلیف اشیا سے متعلق کئی بڑے فیصلے لیے گئے۔ جی ایس ٹی کونسل کی یہ میٹنگیں اس لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، کیونکہ ان کے بغیر ہندوستانی معیشت کا مکمل طور پر جائزہ نہیں لیا جا سکتا، چنانچہ وفاقی ڈھانچے کو متوازن اور مضبوط بنانے کے لیے جی ایس ٹی کاؤنسل کی یہ میٹنگ ضروری ہوتی ہیں۔ جب سے جی ایس ٹی یعنی گڈس اینڈ سروسز ٹیکس کا نفاذ عمل میں آیا ہے اور اس میں سبھی طرح کے بالواسطہ ٹیکس، مثلاً: اکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، ویٹ، سروس ٹیکس، انٹری ٹیکس، سیلز ٹیکس وغیرہ کو مرج کیا گیا ہے۔ ان میٹنگوں کے ذریعے اس ٹیکس میں اضافے یا کمی سے متعلق تمام طرح کے فیصلے لیے جاتے ہیں۔ واضح رہے یہ فیصلے مرکزی حکومت بذات خود نہیں لے سکتی، اس لیے وہ جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ بلاتی ہے اور کافی غور و خوض کے بعد ٹیکس میں کمی یا اضافے پر فیصلہ لیا جاتا ہے۔ یہ جی ایس ٹی کونسل کی 43 ویں میٹنگ تھی جو تقریباً 8 ماہ بعد ہوئی ہے۔ حالانکہ ہر سہ ماہی میں یہ میٹنگ کم از کم ایک بار ضرور ہونی چاہیے۔ یہ میٹنگیں ملک کے مرکزی وزیرخزانہ کی سربراہی میں ہوتی ہیں، ساتھ ہی مالیات سے متعلق سبھی سینئر افسران اور اپنی اپنی ریاستوں کی نمائندگی کرنے کے لیے تمام ریاستوں کے وزیر مالیات بھی شرکت کرتے ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے ریاستوں کو جی ایس ٹی کا بقایا نہیں مل رہا تھا، ریاستیں کافی دنوں سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ کووِڈ سے لڑنے کے لیے مرکز کی طرف سے کوئی خاص مدد تو آ نہیں رہی ہے، اس لیے کم از کم مرکز ہمارا جی ایس ٹی کا بقایا ہی دے دے۔ اس میٹنگ میں کووِڈ ریلیف آئٹم جیسے ویکسین، بلیک فنگس انجکشن، ٹیسٹنگ کٹ، آلات وغیرہ جن کو ہمارا ملک امپورٹ کرتا ہے اور جن پر 12 فیصد جی ایس ٹی لگتا ہے، ان پر سے 31 اگست تک کے لیے جی ایس ٹی کو ہٹا دیا گیا ہے۔ (جی ایس ٹی وہ ٹیکس ہے جو ریاستوں کے مابین خریدو فروخت پر لگایا جاتا ہے۔ اس کا ایک حصہ مرکزی سرکار کے پاس اور باقی حصہ ریاستی سرکار کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔) ساتھ ہی پینل نے فیصلہ لیا ہے کہ مرکزی حکومت ریاستوں کے بقایا جات کے نام پر 1.58 لاکھ کروڑ روپے تمام صوبوں میں تقسیم کرے گی۔ میٹنگ میں جی ایس ٹی ریٹرن بھرنے کی تاریخ میں توسیع وغیرہ جیسے فیصلے بھی شامل رہے۔
جی ایس ٹی ایک ایسا اِن ڈائرکٹ ٹیکس ہے جو قومی سطح پر اشیا اور خدمات کی پیداوار، فروخت اور صرف پر لگایا جاتا ہے۔ جی ایس ٹی کو ہندوستان کے ٹیکس نظام میں کی جانے والی اصلاحات میں اب تک کا سب سے بڑا قدم مانا جاتا ہے، اس لیے اسے ’وَن نیشن، وَن ٹیکس‘ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جی ایس ٹی کے ذریعے ٹیکس نظام میں کی گئی یہ اصلاح ہندوستان کو پرفکشن اور توسیع کی جانب لے جائے گی۔ حالانکہ سماجی طور پردیکھیں تو اِن ڈائرکٹ ٹیکس یعنی جی ایس ٹی کی سب سے بڑی خامی صرف یہ نہیں ہے کہ یہ آمدنی سے قطع نظر ہر شہری پر لگتا ہے بلکہ اس سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے ملک کاامیر ترین اور غریب ترین شخص ایک ہی تناسب میں ادا کرتا ہے۔ مثلاً: اگر یہ 12 فیصد ہے تو امیروں اور غریبوں دونوں کے لیے یکساں طور پر 12 فیصد ہی رہے گا۔ چونکہ یہ ٹیکس براہ راست اشیا اور خدمات کی پیداوار پر لگایا جاتا ہے، اس لیے اس ٹیکس سے استعمال کی جانے والی اشیاکی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے۔ اشیاکا استعمال امیر اور غریب سب کرتے ہیں، چنانچہ جی ایس ٹی کا بوجھ غریب عوام پر کہیں زیادہ پڑتا ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ قابل منتقل ٹیکس ہوتا ہے یعنی اس ٹیکس کا بوجھ دوسروں پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً: حکومت کوجی ایس ٹی ادا کرنے کی ذمہ داری پروڈیوسر یا سیلر کی ہوتی ہے لیکن سیلر جی ایس ٹی کو اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں شامل کر کے خریدار سے وصول کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ جی ایس ٹی کے بوجھ کو خریداروں پر منتقل کر دیتا ہے۔ یہ ٹیکس فطری طور پر Regressive ہوتا ہے (جب ٹیکس کا بوجھ امیروں کی نسبت غریبوں پر زیادہ ہو)۔ یعنی اس میں کم کمانے والا شخص اپنی کمائی کا زیادہ حصہ ٹیکس کی صورت میں ادا کرتا ہے، کیونکہ اس میں جیسے جیسے آمدنی گھٹتی ہے، ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کو یوں سمجھتے ہیں، اگر تمام لوگوں کے لیے ٹیکس کی شرح 10 فیصد ہے، اس صورت میں جس کی آمدنی 10 لاکھ روپے ہے، اس پر ایک لاکھ ٹیکس بنتا ہے گویا ابھی بھی اس کے پاس 9 لاکھ روپے بچے ہیں اور جس کی آمدنی 10 ہزار روپے ہے، اس کو 10 فیصد کے بقدر ایک ہزار روپے ٹیکس دینا پڑتا ہے، چنانچہ 10 ہزار میں ایک ہزار روپے ٹیکس کی صورت میں ادا کرنے کے بعد غریبوں کو اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے، چنانچہ ٹیکس کے اس سسٹم میں امیروں کی بہ نسبت غریبوں پر چوٹ زیادہ ہوتی ہے اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

میٹنگ میں کووِڈ ریلیف آئٹم جیسے ویکسین، بلیک فنگس انجکشن، ٹیسٹنگ کٹ، آلات وغیرہ جن کو ہمارا ملک امپورٹ کرتا ہے اور جن پر 12 فیصد جی ایس ٹی لگتا ہے، ان پر سے 31 اگست تک کے لیے جی ایس ٹی کو ہٹا دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پینل نے فیصلہ لیا ہے کہ مرکزی حکومت ریاستوں کے بقایا جات کے نام پر 1.58 لاکھ کروڑ روپے تمام صوبوں میں تقسیم کرے گی۔ میٹنگ میں جی ایس ٹی ریٹرن بھرنے کی تاریخ میں توسیع وغیرہ جیسے فیصلے بھی شامل رہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ سرکار نے کروڈ آئل، تمباکو اور شراب کو جی ایس ٹی سے باہر رکھا ہے۔ قول و عمل کا اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو سکتا ہے کہ سرکار ایک طرف کہہ رہی ہے کہ جی ایس ٹی پورے ملک کے لیے ایک متحدہ ٹیکس نظام ہے وہیں دوسری طرف وہ پٹرول اور ڈیزل جیسی بنیادی اشیاکو جی ایس ٹی سے باہر رکھ کر اس پر کئی طرح کے ٹیکسز لگا کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کے 6 صوبوں میں پٹرول کی قیمت 100 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ حالانکہ اگر اسے جی ایس ٹی کے دائرے میں لایا جائے اور اس پر جی ایس ٹی کا اعلیٰ ترین سلیب یعنی 28 فیصد ٹیکس بھی عائد کیا جائے تو بھی اس کی قیمت 70 روپے فی لیٹر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یونین پٹرولیم منسٹر نے ابھی چند روز قبل بیان دیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم فی لیٹر پٹرول پر ویٹ اور اکسائز ڈیونی کے نام سے دو تہائی ٹیکس دیتے ہیں۔ ریاستی سرکاریں ویٹ لگاتی ہیں اور مرکزی سرکار اکسائز ڈیوٹی لگاتی ہے۔ جن ریاستوں میں پٹرول کی قیمت زیادہ ہے، اس کا مطلب وہاں کی ریاستی حکومت اس پر زیادہ ویٹ لگا رہی ہے۔ سرکار کہہ رہی ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں نرم کاری (Liberalisation) کے تحت بازار پر چھوڑ دی گئی ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمت اس وقت 70 ڈالر فی بیرل ہے اور پٹرول 100 روپے فی لیٹر ہے جبکہ سال 2013 میں عالمی بازار میں کروڈ آئل کی قیمت 105 ڈالر فی بیرل تھی، اس وقت ہمارے ملک میں پٹرول 70 روپے فی لیٹر تھا۔
انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو کم کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جانا چاہیے تھا یا جس طرح تمام اشیا اور خدمات کو جی ایس ٹی کے دائرے میں لایا گیا ہے اسی طرح مرکزی و ریاستی سرکاروں کو ایک قدم آگے بڑھ کر پٹرول اور ڈیزل کو بھی جی ایس ٹی کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ پٹرول اور ڈیزل پر لگائے گئے ٹیکس میں کمی آتی اور ملک کے غریب عوام کو کووڈ وبا کی اس حالت میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے راحت ملتی جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دراصل ہماری سرکاریں قدم تو اٹھاتی ہیں لیکن اس کا بوجھ غریبوں پر پڑتا ہے۔
rtq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS