کیا ’ کانگریس مکت بھارت‘ کا خواب پوراہوجائے گا؟

0

محمد فاروق اعظمی

ایک وقت تھا جب کانگریس کا پورے ملک پر راج ہوا کرتا تھا،اس وقت بھی حزب اختلاف کا وجود تھا اور ایسا سرگرم وجود کہ اس کی معاونت کے بغیر ایوان میں قانون سازی ممکن نہیں تھی لیکن اب جب کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت ہے حزب اختلاف کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے، یہ صورتحال ملک میں جمہوریت کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ علاقائی پارٹیاں اپنے محدود مفاد کے دائرہ سے باہر نکل کر حزب اختلاف کا سرگرم کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، اگر اس کردار میںکوئی جان ڈال سکتاتو وہ کانگریس تھی لیکن پانچ ریاستوں کے انتخاب نے اب کانگریس کے وجود کو ہی بحران میں لاکھڑا کیا ہے۔
ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب کے نتائج سے جو پیغامات ابھر کرسامنے آئے ہیں ان میں سب سے نمایاں پیغام ’کانگریس مکت بھارت‘ کے خواب کاحقیقت سے قریب ہونا ہے۔ پنجاب ، اترپردیش ، اتراکھنڈ ، منی پور اور گوا میں جو ذلت آمیز ہار کانگریس کا مقدر بنی ہے، اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ عوام اس تاریخی اور قومی پارٹی سے بالکل ہی دور ہوگئے ہیں اور کانگریس کو اب تاریخ کے صفحات پر ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ایسا کیوں ہوا، اس کی وجوہات کیا ہیں اور کانگریس قیادت ان حالات سے نکلنے میں ناکام کیوں ہے، یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب نہ صرف کانگریس کو حاصل کرنا ہوگا بلکہ ملک میں مضبوط اورمستحکم جمہوریت کیلئے بھی اس سوال کا حل کیا جانا ضروری ہے۔
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں پرینکا گاندھی نے پوری طاقت جھونک دی تھی لیکن انتخابی نتائج نے بتایا کہ اس انتخاب میں کانگریس نے تاریخ کی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور صرف دو سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ووٹوں میں حصہ داری بھی محدود ہوکر فقط2.5فیصد رہ گئی ہے۔ اسی ریاست میں کانگریس کو سال 2012میں28سیٹیں، 2007میں 22اور 2002 میں25سیٹیں ملی تھیں۔اسی اترپردیش میں2017کے اسمبلی انتخاب میں سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر انتخابی میدان میں اترنے والی کانگریس نے سات سیٹیں حاصل کی تھیں، اس وقت کانگریس کی ووٹوں میں حصہ داری بھی6.5فیصد تھی اور سماج وادی پارٹی کو28.3فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس بار سماج وادی پارٹی کا یہ حصہ10فیصد بڑھا ہے جب کہ کانگریس کی حصہ داری تقریباً3گنا کم ہوگئی۔ پنجاب میں تو کانگریس نے اپنا اقتدار ہی گنوا دیا۔ کانگریس کو فقط 18 سیٹیں ملی ہیں جب کہ 2017 میں کانگریس نے یہاں 77سیٹیں جیت کر حکومت بنائی تھی۔ لیکن اس بار عام آدمی پارٹی نے کانگریس کاپوری طرح صفایا کردیا۔ اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں کانگریس کو اقتدار میں آنے کی امید کی جارہی تھی لیکن ان ریاستوں میں بھی کانگریس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔
انتخابات میں مسلسل ہار کے بعد کانگریس کی حالت ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی ہوگئی ہے۔ یقینی طور پر کانگریس کی یہ حالت بے سمت قیادت ، اندرونی رسہ کشی اور گرو ہ بندی کی وجہ سے ہوئی ہے اور حالت روزبروز خراب ہوتی جارہی ہے۔ قیادت کی بے سمتی اور فیصلہ کرنے میں تاخیر کی وجہ سے ہی آج پنجاب میں کانگریس اقتدار سے باہر ہوگئی ہے۔اس ریاست میں وزیراعلیٰ رہے کیپٹن امریندر سنگھ اوران کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو کے درمیان تصادم کئی مہینوں تک چلا لیکن پارٹی قیادت اس پر کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے ’دیکھو اورا نتظار کرو‘ کی پالیسی پر قائم رہی جب انتخاب آنے میں چند مہینے باقی رہے تو اچانک کیپٹن امریندر سنگھ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ قیادت نے کیپٹن کی رخصتی کا جو طریقہ اپنایا اسے بھی باعزت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد تو پنجاب کانگریس میں جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔ نوجوت سنگھ سدھو صدر بنائے گئے اور وہ خود کو ہی وزیراعلیٰ بنانے کیلئے سرگرم ہوگئے اور ہفتوں بحران کی کیفیت رہی، یہاں بھی فیصلہ میں تاخیر آڑے آئی اورقیادت نے اچانک قرعہ فال چرنجیت سنگھ چنی کے نام نکال دیا۔ سدھو کی امیدوں پرا وس پڑگئی اور اسمبلی انتخاب میں انہوں نے بے دلی کا مظاہرہ کیا۔یہ وہ حالات تھے جن میں آتا ہوا اقتدار کانگریس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اتر اکھنڈ میں بھی آپسی رسہ کشی اور اندرونی بغاوت کی وجہ سے ہی کانگریس کوئی کارکردگی نہ دکھاسکی اور ذلت آمیز ہار مقدر بنی۔ اسمبلی انتخاب کیلئے جس وقت ضرورت تھی کہ تیز تر مہم چلائی جاتی اس وقت وہاں کانگریس نے گربہ پائی کا رویہ اختیار کیا۔ اس پہاڑی ریاست میں وزیراعلیٰ کیلئے کسی چہرہ کااعلان نہ کیے جانے کی وجہ سے بھی خواہش مند لیڈروں نے بے دلی دکھائی۔ کانگریس کے سینئر لیڈر ہریش راوت اس امید میں تھے کہ انہیں پارٹی وزیراعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرے گی لیکن ایسانہیں ہوا اور راوت کے باغیانہ تیور کی وجہ سے انتخابی مہم پر منفی اثر پڑاحالانکہ اتراکھنڈ میں بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف لہر تیز تھی۔ بی جے پی حکومت کی ناقص کاکردگی اور تین تین وزیراعلیٰ بدلے جانے کی وجہ سے عوام میں بی جے پی کے تئیں اقتدار مخالف لہر بھی تھی، کانگریس اس لہر کو اپنے حق میں ہموار نہیں کرسکی۔ضرورت تو یہ تھی اتراکھنڈ میں کانگریس خود کو بی جے پی کے مضبوط متبادل کے طور پر پیش کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا اس کے لیڈران وزیراعلیٰ بننے کی آرزو میں پارٹی کیلئے کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا راستہ کاٹتے رہے اور عوام نے پوری پارٹی کو ہی مسترد کردیا۔ منی پور کانگریس میں بھی کم و بیش یہی صورتحال رہی۔ وزیراعلیٰ این بیرین سنگھ کے خلاف اقتدار مخالف لہر کے باوجود کانگریس نے 60ارکان والی اس اسمبلی میں صرف سات سیٹیں ہی حاصل کیں جب کہ بی جے پی 32کا جادوئی ہندسہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
گوا میں توموقع پرست لیڈران نے خود ہی کانگریس کو ڈبونے میں اہم کردار اداکیا۔رسہ کشی اور گروہ بندی کی وجہ سے خود کو پارٹی میں اکیلا محسوس کرنے والے سابق وزیراعلیٰ لوزنہو فلیرو نے کئی دیگر ارکان اسمبلی کے ساتھ پارٹی چھوڑ دی اور ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے، انہیں یہ امید تھی کہ ترنمول کانگریس گوا میں بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی لیکن عوام نے کانگریس کے ساتھ ساتھ ترنمول کانگریس کو بھی مسترد کردیا اور اس کاکھاتہ تک نہیں کھل سکا۔
ان نتائج کی روشنی میں کانگریس کو کم از کم اس بات پر ضرور غور کرناچاہیے کہ ان کے لیڈران ایک ایک کرکے آخر پارٹی کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ آر پی این سنگھ سے لے کر جیوتر ادتیہ سندھیا تک چند ماہ قبل تک کانگریس قیادت کی ناک کا بال سمجھے جاتے تھے لیکن ان سب نے پارٹی چھوڑ دی۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے اب تک پارٹی تو نہیں چھوڑی ہے مگرقیادت سے شدید نااتفاقی رکھتا ہے۔خود کو جی23-کہنے والے اس گروپ میں غلام نبی آزاد ، کپل سبل، منیش تیواری ،آنند شرما، ملند دیورا،مکل واسنک ، راج ببر، جیتن پرساد، بھوپندر سنگھ ہڈا جیسے بڑے لیڈران شامل ہیں۔ یہ تمام لیڈران پارٹی کی قیادت سے شدید نااتفاقی رکھتے ہیں اور قیادت میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔ ان لیڈروں نے بارہا یہ کہاہے کہ کانگریس کی حالت علاقائی پارٹیوں سے بھی زیادہ خراب ہوگئی ہے اور اگر وہ قیادت میں تبدیلی نہیں لائے گی تو کانگریس کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔
پانچ ریاستوں کے نتائج کی روشنی میں ان لیڈران کی باتوں سے اتفاق نہ کرنے کی بظاہرکوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں بارہا قیادت کی تبدیلی کی بات آئی ہے۔ تھوڑی دیر تک اس پر بحث ہوتی ہے، سونیاگاندھی ناراض ہوکر استعفیٰ دیتی ہیں، کئی ایک جگہوں پران کے وفادار احتجاج اور مظاہرہ کرتے ہیں اور بات پھر ختم ہوجاتی ہے۔لیکن اب تو پارٹی کا وجودا ور بقا ہی دائو پر لگی ہوئی ہے۔اسی سال کے آخر میں گجرات، ہماچل پردیش ، کرناٹک ، چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی اسمبلی انتخاب ہونے ہیں۔ پورے ملک میں اب صرف راجستھان اور چھتیس گڑھ ہی ہے جہاں کانگریس اقتدار میں ہے۔اگر آنے والے اسمبلی انتخاب میں ان ریاستوں کو بھی کانگریس نہیں بچاپائی تو پھر ’کانگریس مکت بھارت‘کاخواب حقیقت بننے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS