آزاد کے جانے سے کیا کانگریس ختم ہو جائے گی؟

0

انجینئر خالد رشید (علیگ)
وہ افواہ جو کافی دنوں سے سیاسی حلقوں میں گشت کر رہی تھی بلآخر سچی ہوکر اخباروں میں چھپ گئی۔ سوشل میڈیا میں و ائرل ہو گئی۔ راجیو گاندھی کے رفیق خاص سونیا کے وفادار سپہ سالار کانگریس میں چار دہائیوں تک فیصلہ ساز ہائی کمان کاحصہ رہے قدآور لیڈر غلام نبی آزاد بھی ڈوبتی کشتی سے کود گئے۔ جی ہاں آپ صحیح سوچ رہے ہیں مہاورتاً تو ڈوبتے جہاز سے کودا جاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کانگریس کا وجود جو کبھی ایک طویل وعریض جہاز کا ہوا کرتا تھا وہ اب ایک چھوٹی سی کشتی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بحرحال افواہ جو خبر بنی وہ یہ تھیں کہ غلام نبی آزاد نے کانگریس کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس واقع میں خبر کچھ بھی نہیں ہاں جو پانچ صفحات کا طلاق نامہ موصوف نے تحرکیا وہ ضرور بحث کا موضوع بن گیا اور مجھ جیسے بیکار تجزیہ نگاروں کو قیاس آرائیوں کا موقع مل گیا۔ اس طلاق نامہ میں موصوف نے اسی راہل گاندھی کو کانگریس کی بدحالی کا ذمہ دار قرار دیا جن کو وہ کبھی کانگریس کے لئے امید کی کرن تصور کیا کرتے تھے غلام نبی آزاد کے آزاد ہونے اور کانگریس چھوڑنے کی خبریں تو اسی دن سے آرہی تھیں جس دن ان کی الوداعی تقریب کے موقع پر وزیراعظم کی آنکھوں میں پورے ملک نے آنسو دیکھے تھے ا سی وقت لوگوں نے عجیب عجیب پیشین گوئیاں کرنی شروع کردیں تھیں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ غلام نبی آزاد بی جے پی میں شامل ہوکر NDAکے صدارتی امید وار بن جائیں گے لیکن بی جے پی تو مسلم مکت سیاست کا بیانیہ بنانا چاہتی ہے اس کا ووٹر تو اسی بات پہ خوش ہے کہ بی جے پی اپنے دروازے پرNo Entry For Muslims کا بورڈ لگا دے اور ان تمامUn Wanted مسلمانوں کو ایک ایک کر کے باہر کا راستہ دکھا دے جو پارٹی میں اٹل اور اڈوانی کی وراثت کے طور پر باقی رہ گئے تھے۔ ایسی صورت میں کیوں کر ممکن تھا کہ غلام نبی آزاد کو بی جے پی ہندوتو کے جہاز پہ سوار کرتی۔ کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ بی جے پی اپنے بل بوتے پر کشمیر میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتی، اس کو کشمیر کی تین پارٹیوں میں سے کسی ایک پارٹی کی بیساکھی کی ضرورت ہوگی۔ محبوبہ مفتی دودھ سے جل چکی ہیں وہ دوسری باربی جے پی سے اتحاد کی غلطی دہرانے والی نہیں ہیں فاروق عبداللہ کے رشتے کانگریس سے بیحد خوشگوار ہیں۔ کانگریس سے بی جے پی کی کوئی مفاہمت ممکن نہیں۔ اس لیے جس بیساکھی کی بی جے پی کو تلاش ہے ہو سکتا ہے وہ غلام نبی آزاد کی شکل میں اس کو مل جائے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کی کوئی بھی جماعت بی جے پی کے ساتھ الیکشن سے پہلے کوئی مفاہمت نہیں کر سکتی اور بنا کسی لوکل پارٹی کی مدد کے بظاہر بی جے پی وہاں حکومت نہیں بنا سکتی۔ ایسی صورت میں ایک نئی پارٹی جو آٹھ دس نشستیں جیت کر بی جے پی کی مدد کر سکتی ہے وہ غلام نبی صاحب کی وہ پارٹی ہو سکتی ہے جس کی تشکیل کا اشارہ وہ دے رہے ہیں، لیکن کیا یہ پیغام اتنا بڑا انعام ہے جس نے غلام نبی کو پچاس سالہ رشتہ منقطع کرنے پہ مجبور کر دیا؟ یا پھر وہ مودی جی کی جذباتی تقریر اور پدم بھوشن کے جھانسے میں آکر بی جے پی کی کانگریس مکت بھارت مہم کا حصہ بن گئے یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ غلام نبی آزاد کا فیصلہ غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے اس پارٹی سے رشتہ توڑا ہے جس نے ان کو سیاسی افق کی بلندیوں تک پہنچایا۔ چار بار راجیہ سبھا کا رکن بنوایا۔ اندرا گاندھی سے لیکر منموہن سنگھ کی آخری حکومت تک ہر وزارت میں شامل رکھا۔ کئی بار جنرل سکریٹری کے اہم عہدے سے نوازا۔ اس پا رٹی کو ایسے وقت میں چھوڑنا جب وہ اپنی سو سالہ تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہو یقینا غداری کے زمرے میں تو آتا ہی ہے لیکن سیاست میں حال اور مستقبل ماضی پہ ہمیشہ بھاری رہتا ہے۔ موقع پرستی کے اس دور میں جہاں عہدوں کی لالچ میں راتوں رات وفاداریوں کو پوشاکوں کی طرح بدلنا ایک فیشن بن چکا ہو، وفاداریوں کی باتیں کرنا ایک احمقانہ امر ہے ایک زمانہ تھا جب کانگریس نے اسی غلام نبی آزاد کو جموں سے مہا راشٹر لے جا کر لوک سبھا کا رکن منتخب کرا دیا تھا اس وقت وہ سنجے گاندھی کی آمرانہ پالیسیوں کے ساتھ ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑے رہے لیکن موجودہ حالات میں وہی کانگریس ان کو چاہتے ہوئے بھی راجیہ سبھا بھی نہیں بھیج سکی۔ ایسی صورت میں ان سے یہ توقع کرنا کہاں تک حق بجانب ہے کہ وہ اس راہل کے ساتھ کھڑے رہیں جو ان کو راجیہ سبھا بھی نہیں بھجوا پا رہا ہے دنیا جانتی ہے کہ یہ کل یگ ہے اگر باپ کی جیب خالی ہو تو اولاد نا فرمان ہو جاتی ہے اس کو باپ کی جائز بات بھی ناجائز لگنے لگتی ہے ظاہر ہے اگر سونیا گاندھی کے پاس غلام نبی آزاد یا کپل سبل کو راجیہ سبھا بھجوانے یا لوک سبھا کا الیکشن جیتانے کی طاقت نہیں ہے ایسی صورت میں ان سے یہ توقع رکھنا بھی غلط ہی ہے کہ وہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں نعرے لگاتے پھریں گے غلام نبی آزاد کی عمر 73سال ہو چکی ہے جس میں سے 50 سال وہ کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا مزا لیتے رہے اب ان کے پاس دو ہی متبادل ہیں یا تو وہ کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کی جدوجہد کرتے رہیں یا مودی جی کی گڈ بک میں اپنا نام درج کرا کے عارف محمد خاں کی طرح کسی صوبہ کے گورنر بن جائیں یا کم سے کمED, CBI اور انکم ٹیکس کے عتاب سے محفوظ رہیں۔ ظاہر ہے دوسرا متبادل ایک آسان متبادل ہے۔
جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے اس کو بھی اپنے گریبان میں جھاکنے کا ایک اور موقع اس استعفیٰ نے فراہم کیا ہے۔ غلام نبی آزاد کے پانچ صفحات کے طلاق نامہ میں یہ ایک بات صحیح ہے کہ بھارت جوڑو ابھیان چلانے سے پہلے کانگریس جوڑو ابھیان چلانے کی ضرورت ہے۔ کل ملکا رجن کھڑگے کا بیان بیحد معنی خیز ہے کہ پارٹی راہل کو اس بات کے لیے تیار کرے گی کہ وہ صدارت کا عہدہ سنبھالیں۔ اگر کانگریس کے اکثر ارکان اس بات پہ متفق ہیں کہ راہل گاندھی ہی کانگریس کی بچی کھچی پونجی ہیں تو راہل کو بھی اپنی ضد چھوڑ کر پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے۔ 2019 میں راہل کے استعفیٰ کے بعد پارٹی جس لاوارثی کی شکار ہے اس کا ذمہ دار کون ہے اس کا جواب تو کسی کو دینا ہی پڑے گا۔ غلام نبی آزاد کو غدار ثابت کرنا اپنی جگہ ہے، لیکن اس بات کا جواب تو کانگریس قیادت کو دینا ہی ہوگا کہ G23 کے باغیانہ تیور جو 2 سال پہلے منظرعام پر آچکے تھے اور پارٹی کا ایک طاقتور گروپ کھل کر پارٹی کے نظام پہ نظرثانی کا مطالبہ کر رہا تھا اس کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ کانگریس ایک کے بعد ایک الیکشن ہارتی رہی جیت کر بھی بی جے پی کی حکومت بنواتی رہی اور اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی حکومت نہ بنا سکی، ان تمام ناکامیوں کا ذمہ دار صرف غلام نبی آزاد کے استعفیٰ کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک پارٹی کی تقسیم کا تعلق ہے وہ کانگریس کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کانگریس میں تقسیم کی پرانی روایت ہے، 100 سال پرانی یہ پارٹی کم و بیش 150 مرتبہ ٹوٹ چکی ہے۔ آج بھی ملک میں کانگریس کے لاکھوں کارکنان کسی ایسے قائد کے منتظر ہیں جو اندرا گاندھی جیسا حوصلہ لال بہادر جیسی سادگی اور نہرو جیسی دور اندیشی سے ان کی رہنمائی کر سکے۔ کانگریس میں لیڈر کا نہیں قیادت کا فقدان ہے۔ اگر کانگریس کو با صلاحیت قیادت مل جائے تو ایک دو غلام نبی آزاد کے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جیسے مرارجی دیسائی، نیلم شنجیوا ریڈی، جگ جیون رام اور بہوگنا کے جانے سے نہیں پڑا تھا ۔ n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS