بدلتے حالات میں ہماری ترجیحات

0

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
قومیں اور معاشرے اسی وقت مستحکم اور اخوت کے رشتے میں بندھتے ہیں جب کہ ایک دوسرے کو انگیز کیا جائے۔ چہ جائے کہ سامنے والے کے نظریات مخالف ہیں۔ لیکن اسے برداشت کرنا اور اسے اس کی ضرورت سمجھنا سب سے بڑی نیکی ہے۔مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ آج ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں فکرو نظر اور عقیدہ و خیال کی آزادی کو مسدود کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ خیال وقتی طور پر کسی تنگ نظر سماج کو لبھا سکتا ہے۔ لیکن جب ہم اس کے دوررس نتائج پر نظر ڈالتے ہیں تو پھر سوائے افسوس اور مایوسی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں لگتا ہے۔ اس سے جہاں ملک کی تاریخی اور ثقافتی عظمت پر آ نچ آتی ہے تو وہیں باہم قوموں میں ایک دوسرے کے لیے گنجائش بھی کم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جو کسی بھی تکثیری سماج کی عظمت رفتہ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ادھرعہد حاضر میں اگر عالمی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے رویے زیادہ تر غیر سنجیدہ یا جذباتی دکھائی پڑتے ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ہمارے یہاں کام کم بلکہ شور زیادہ ہوتا ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ جو مسائل آ ج بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ یا جن باتوں کو اْجاگر کرکے مسلمانوں کو مایوس کیا جارہاہے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے پاس لائحہ عمل کیا ہے؟ اس وقت کا یہ اہم سوال ہے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے درمیان آج مسائل گنانے والوں کی لمبی قطار ہے۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہر دوسرا شخص اور تقریبا تمام سماجی اور ملی تنظیمیں مسلمانوں کے مسائل بتانے کو فرض عین تصور کرتی ہیں اور پھر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی ہیں۔۔ یقیناً مسائل اور احوال پر نظر رکھنے سے ملت وقوم میں بیداری آتی ہے۔ لیکن یاد رکھیے ہمیں قوم کو صرف بیدار نہیں کرنا ہے بلکہ سماجی، سیاسی، ملی اور قومی مسائل ومصائب سے رستگاری کیسے ہو، قوم اپنے پیروں پر کیسے کھڑی ہو، ہمیں اس پر بھی بات کرنی ہوگی۔ راقم تو یہ سمجھتا ہے کہ صرف مسائل پر توجہ مبذول کرنے سے مایوسی اور نا امیدی ہاتھ لگتی ہے۔ قوم وملت کے نوجوان انتشار ذہنی کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے ہدف اور مقصدیت کی جانب گامزن ہونے میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔ ہر وہ مشورہ جو قوم وملت کے لیے سود مند ثابت نہ ہوسکے ، اسی طرح ہر وہ فکر و نظریہ جو ہمارے مسائل یا موجودہ حالات میں ہمارے پائے استقلال کو مستحکم نہ کرسکے اس کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔صرف نظر اس سے کہ اس کو کون بتا رہا ہے۔ جب مقصدیت اور اجتماعی مفادات کا حصول نہ ہو، یا مسائل کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے کہ اس سے حالات پٹری پر آنے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو جائیں تو پھر تصور کیجیے ہم کیسے خود کو مسائل سے دور رکھ سکیں گے۔ آج جو ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے افراد ملت کی قیادت کے لیے آگے آئیں جو مسائل کا بیان کرنے سے زیادہ ان کا حل بتائیں اور وہ حل کی طرف لے جائیں۔ دقت صرف یہی نہیں ہے کہ مسائل کو پیش کرنے والوں کا تناسب زیادہ ہے بلکہ اس سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ آج ہر شخص اپنی رائے اور نظریہ کو ہی درست سمجھتا ہے۔ اگر اس کی رائے کے متضاد کوئی مشورہ دیا جاتاہے تو وہ اسے ہر گز قبول کرنے کو آمادہ نہیں ہوتا ہے۔ جب اس طرح کی شدت اور ہٹ دھرمی کسی بھی قوم میں غالب ہونے لگتی ہے تو پھر اس قوم کا سیاسی، تعلیمی اور سماجی مستقبل قطعی طور پر تاریک ہو جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ایسی قوم پر جذبات غالب آجاتے ہیں، جس کی بناء پر وہ درست تجزیہ کرنے اور مشکل ترین حالات میں مثبت کردار ادا کرنے سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جذبات میں بہ کرکبھی بھی کسی قوم نے درست فیصلہ نہیں کیا ہے۔ کیونکہ جذبات سے مملو قومیں سوچنے، سمجھنے اور تدبر وتفکر کرنے سے محروم ہوجاتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ جب بھی کسی سماج یا قوم نے جذبات میں آکر کوئی فیصلہ یا تجزیہ کیا ہے تو اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن اور پشیمانی کا باعث بنے ہیں۔ اس لیے اگر ہمیں اپنے قومی وملی تشخص اور تہذیبی و ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنی ہے تو پھر اپنے افکار ونظریات میں مناسب تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم کہنے سے زیادہ سننے، سمجھنے اور سوچنے کے عادی ہوں گے۔ چیزوں کا صحیح تجزیہ کرنے کی استعداد ہوگی۔ فکر و نظر میں توازن و اعتدال اور کشادگی پائی جانے لگے گی۔ دوسروں کو سننے اور برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اہم بات یہ بھی کہ آج ہمیں زمینی سطح پر اتر کر ، حالات و واقعات کا مشاہدہ کرکے درست سمت میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی سطح پر یا عوام میں ان چیزوں کو پیش کیا جائے جن سے براہ راست عوام کو فوائد حاصل ہوسکے۔ وطن عزیز کی حالیہ جو صورت حال ہے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہے آ ئے دن کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا رونما ہورہا ہے جس سے مسلمانوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے پاس کوئی بھی منظم و مرتب لائحہ عمل نہیں کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں نفرت کی آبیاری انگریزوں کے دور سے شروع ہوئی اور ابھی تک یہ تعصب وجانبداری اور نفرت کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی۔ فرق اتنا ہے کہ اب نفرت کا کاروبار علی الاعلان کیا جارہا ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے رشتے کو کمزور کیا جارہاہے۔ اب ایسے حالات میں ہمیں توجہ دینی ہوگی کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم رشتوں کو باقی کیسے رکھا جائے۔ جس دن ہم نے ہندوستانی مشترکہ تہذیب کو مستحکم کرلیا یقین جانیے اسی وقت تمام مسائل کا حل نکل آئے گا۔
بڑے کرب کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج ہماری توجہ مثبت اور منطقی لٹریچر کو تیار کرنے پر کم بلکہ جلسوں کو منعقد کرنے پر زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے آج ہماری قوم میں ایک سے بڑھ کر ایک تقریر کرنے والے موجود ہیں۔ لیکن ابھی تک ہمارے پاس ایسا لٹریچر موجود نہیں ہے جو عہد حاضر میں کئے جانے والے اعتراضات کو منطقی اور علمی انداز میں رفع کرسکے۔ہاں مقررین ایسے ملیں گے جو اپنی تقریر سے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں، لیکن ذرا سوچئے کیا صرف تقریروں اور لچھے دار خطبوں سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ جب کوئی مقرر تقریر کرتا ہے تو وہ اپنی تقریر کے بعد سامنے بیٹھے ہوئے افراد کو بڑی دزدیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ لوگ مجھے داد و تحسین سے نوازیں گے اور کہیں گے کہ بہت شاندار گفتگو کی ہے۔ اگر لوگ اس کی تعریف وتوصیف نہیں کرتے ہیں تو وہ سمجھتا ہے کہ میری محنت اکارت گئی۔ جب جلسوں میں گفتگو کرنے والوں کی یہ سوچ ہو تو پھر اندازہ لگائیے کہ ایسے خطبوں اور تقریروں سے کس طرح کے نتائج برآمد ہوں گے؟ گویا ہمارے یہاں جلسے، مشاعرے اور سیمینار ایک لمبے عرصے سے منعقد ہورہے ہیں۔ قوم وملت کا پیسہ بھی خاصا خرچ ہورہا ہے مگر جب نتیجہ یا اس کے اثرات کی طرف دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کا زمینی سطح پر کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں ہے۔ جو تجاویز سیمیناروں کے اختتام پر منظور ہوتی ہیں اْنہیں صرف ریکارڈ کے طور پر رکھ لیا جاتاہے۔ وہ صرف کاغذ تک محدود رہتی ہیں ان کا زمین سے قطعی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی اپنی جگہ افادیت و معنویت ہوسکتی ہے مگر کیا عصری تقاضوں کو پورا کرنے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کو ہم جلسوں سے ختم کرسکتے ہیں ؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ہم آگے بڑھیں تو پھر روایتی باتوں، سنی سنائی چیزوں سے آگے نکل کر حقائق ومشاہدات کی دنیا میں قدم رکھنا ہوگا۔ نظریاتی اور فکری طور پر بھی ہمیں ایسے افراد تیار کرنے کی بنیادی ضرورت ہے جو صحیح وقت پر صحیح جواب دینے کی استعداد رکھتے ہوں۔ اب ذرا دیکھئے آ ج مغرب کی تمام جامعات ودانشگا ہوں میں اسلامیات کے مراکز قائم ہوچکے۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن کبھی سوچا کہ ان مراکز میں تحقیق و تفتیش کا منہج واسلوب کیا ہے ؟اور کن کن موضوعات پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اسلام کے حوالے سے انہوں نے کیا کیا اعتراضات تیار کر رکھے ہیں ؟۔ حیرت کی بات تو یہ ہے وہاں اسلام کے متعلق جو اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کا جواب تیار کرنا تو دور کی بات ہمیں ان کے بارے میں پتہ تک نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے اداروں، جماعتوں اور مصنفین ومولفین کے پاس ان کو کاؤنٹر کرنے کے لیے نہ فکر ہے، نہ سوچ اور نہ مطالعہ میں توسع اور کشادگی ہے۔ اسلام کے خلاف جو باتیں مغربی اداروں سے شائع ہوتی ہیں ان کو دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلامو فوبیا کے متعلق جتنا پروپیگنڈہ وہاں ہورہاہے، وہ ہم سب کے لیے بڑا المیہ ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ ہمارے پاس اداروں کی کمی ہے۔ یا افراد نہیں ہیں۔ افراد بھی ہیں اور ایسے ادارے بھی ہیں جو صحیح معنوں میں کام کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان تمام مسائل پر عدم توجہ کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن ان میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلکی اختلافات سے نکلنے کو بالکل تیار نہیں ہیں۔ ذرا دیکھئے آج ایک دوسرے کے مسلک و مشرب کے خلاف جتنا لٹریچر ہمارے پاس موجود ہے یا ابھی بھی تیار کیا جارہاہے اس کے عشر عشیر بھی ہم نے ان اعتراضات کو کاؤنٹر کرنے کے لیے تیار نہیں کیا جو اعتراضات مغربی اداروں میں کیے جارہے ہیں۔ اسلامی اقدار کو جس خوبصورت انداز میں مجروح کیا جارہا ہے ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے بہت سارے لوگ ان ہی نظریات کے حامل ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اب مزید ضرورت اور عصری تقاضوں سے روگردانی نہیں کی جاسکتی ہے۔ اگر مزید ہم نے چیزوں سے بے اعتنائی برتی تو پھر یقینی طور پر اس کے نتائج ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ہندوستان میں آ ج اگر اسلامو فوبیا بڑھ رہا ہے تو اس کی وجہ جہاں اسلام اور مسلمانوں سے ان کی دشمنی اور تعصب کی علامت ہے تو وہیں ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے روایتی اور مسلکی جھگڑوں میں تو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا لیکن اصل کام کرنا بھول گیے ،یا اسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اگر یہ تمام چیزیں وقت پر ہوجاتیں تو عین ممکن ہے کہ مسلمانوں کی صورت حال اسقدر پتلی نہیں ہوتی۔ اسی طرح آج ہمارے حلقے سے یہ بات بڑی شد و مد کے ساتھ اٹھائی جارہی ہے کہ ٹی وی مباحثوں میں مسلمانوں کو شریک نہیں ہونا چاہیے بالکل درست اور صحیح اقدام ہے۔ لیکن ذرا یہ بھی سوچیے کہ آخر ہم یہ بات اس لیے کررہے ہیں کہ ہمارے پاس ایسے افراد نہیں ہیں جو صحیح معنوں میں ہماری ترجمانی کرسکیں۔ اگر ہمارے اداروں نے افراد سازی کی ہوتی اور عصری ضروریات کو مد نظر رکھ کر نصاب و نظام میں مثبت تبدیلی کی ہوتی تو شاید یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ٹی وی مباحثوں میں شرکت نہ کی جائے۔ اس وقت ہم یہ کہتے کہ ہمارے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ ہم کسی بھی طرح کے اعتراضات کو ہر فلیٹ فارم سے دفع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آ خر میں یہ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جذبات سے باہر نکل کر، سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں ان تمام تحدیات کو ذہن میں رکھ کر آ گے بڑھنا ہوگا کہ جو آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ یا مستقبل میں پیش آنے والی ہیں۔ دانشمند قومیں وہ ہوتی ہیں جو حال پر قابو پانے کے ساتھ مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ چیزوں سے بھاگنا یا حالات سے ڈر کر گوشہ نشینی اختیار کرلینا کبھی بھی دانشمند قوموں کا شیوہ نہیں رہا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسوقت کن چیزوں کی ضرورت ہے اور ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہیے اس پر مکمل یکسوئی اور توجہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سارے مسائل ہیں جو ہمیں آواز دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کو ہمارے قائدین کس طرح حل کرتے ہیں اور مسلمانوں کے تاریخی وسماجی تشخص کے ساتھ ساتھ ان کے دینی ورثے کی حفاظت کے لیے کس طرح سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS