’ون اِنڈیا-ون ووٹ‘ میں کیوں نظر آرہی ہے کھوٹ؟

0

گزشتہ ہفتہ اپوزیشن کی زبردست مخالفت کے درمیان ایک اور بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس ہوگیا۔ ’ایک اور‘ کا استعمال اس لیے کیوں کہ حالیہ دنوں میں کئی اصلاحی بلوں کا یہی حال ہوا ہے، پھر یا تو وہ قانون بنے ہیں یا پھر عدالت کی بحث میں الجھے ہیں۔ انتخابی اصلاحات سے متعلق اس بل کو بھی اپوزیشن پارٹیاں پارلیمانی کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کررہی تھیں، لیکن حکومت نے اس مطالبہ کو مسترد کردیا۔ دونوں ایوانوں سے پاس ہونے کے بعد اب اس بل کے قانون بننے میں بس صدر کی منظوری کا فاصلہ باقی رہ گیا ہے۔ اس بل کے ذریعہ حکومت نے عوامی نمائندگی قانون کے کئی التزامات میں تبدیلی کی ہے۔ بالخصوص اس میں ووٹر آئی ڈی کو آدھار کارڈ سے جوڑنے کا التزام ہے۔ چوں کہ اس تعلق سے تنازع کی صورت حال پیدا ہوئی ہے تو ظاہر ہے اس میں دو ایسے فریق ہیں جو ایک دوسرے کو اپنی دلیلوں سے یقین دہانی کا احساس نہیں کروا پارہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے ووٹر لسٹ میں ناموں کی تکرار کو ختم کیا جاسکے گا جس سے فرضی ووٹنگ پر نکیل کسے گی۔ وہیں، اپوزیشن رازداری کی خلاف ورزی کا حوالہ دے کر دلیل دے رہا ہے کہ نئے التزام سے ووٹروں کی نگرانی کا خدشہ ہے جس سے ووٹنگ خفیہ نہیں رہ جائے گی اور غیرجانبدارانہ انتخاب کا اصول متاثر ہوگا۔ کچھ اپوزیشن لیڈران کو تو یہاں تک خدشہ ہے کہ یہ قانون عوام کو دبانے، حق رائے دہی سے محروم کرنے اور تفریق کرنے کا ہتھیار تک ثابت ہوسکتا ہے۔
بنیادی طور پر اس مخالفت کے تین سرے نظر آتے ہیں۔ مخالفت کی پہلی اور سب سے بڑی جڑ ہے رازداری کو خطرہ کیوں کہ اس میں ڈاٹا چوری ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کی یہ پہل رازداری کو شہریوں کے بنیادی حق کا درجہ دینے والے سپریم کورٹ کے آرڈر کی خلاف ورزی بھی ہے۔ تیسرا یہ کہ چوں کہ آدھار کارڈ شہریت کا نہیں صرف رہائش کا ثبوت ہے اس لیے اسے ووٹر آئی ڈی سے جوڑ کر حکومت ممکنہ غیرشہریوں کو بھی ووٹنگ کا حق دے رہی ہے۔
یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ کسی شخص کی شناخت کو انفرادیت کا درجہ دینے والے آدھار کو اپنی پیدائش کے وقت سے ہی اپنی شناخت کے لیے جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ وقت کے ساتھ تکنیک کی مدد سے بھلے ہی اسے سیکورٹی کے نظریہ سے مضبوطی دی جاتی رہی ہو، اس کے باوجود اس کے تحت ذاتی معلومات کی حفاظت ہمیشہ سے سوالات کے گھیرے میں رہی ہے۔ آج ووٹنگ کی غیرجانبداری سے متعلق حکومت پر حملہ آور اپوزیشن کبھی اس کے بایومیٹرک فیچر کے تعلق سے سوال اٹھایا کرتا تھا جب کہ ماضی میں سائنسی طریقہ سے دو اشخاص میں باریک فرق اور کروڑوں لوگوں کے درمیان بھی مجرمین کا پتہ لگا لینے والی یہی خاصیت اس کا غلط استعمال روکنے کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوئی ہے۔ آدھار سے جڑ کر موبائل سم کو ملی نئی پہچان ’راست ثبوت‘ کی ایک سٹیک مثال ہے۔ مجرمین پر قانون کا شکنجہ کسنے کے ساتھ ہی اس کا سب سے بڑا فائدہ بے نامی جائیداد پر قدغن لگانے، گھر بیٹھے بینکنگ سروس ملنے اور سرکاری اسکیموں کے فائدوں کا اس کے صحیح مستحقین تک پہنچانے میں نظر آیا ہے۔ اس کی مدد سے غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے نقلی مستحقین سسٹم سے باہر ہوئے ہیں اور اکیلے مرکزی حکومت کی اسکیموں میں ہی ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر سے2لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت ہوئی ہے۔ اس میں ریاستی حکومتوں کی اسکیموں کے اعداد و شمار جوڑیں گے تو یہ بچت حقیقت میں کئی گنا زیادہ بڑی ہے۔ آدھار کو ووٹر آئی ڈی سے جوڑ کر حکومت دراصل ملک کے رائے دہی کے حق کو متاثر کرنے والے ایسے ہی نقلی ووٹروں کو سسٹم سے باہر نکالنا چاہتی ہے۔
ڈیجیٹل لین-دین سے لے کر کورونا ٹیکہ کاری مہم کے مینجمنٹ تک آدھار پر مبنی ہے۔ کووڈ کے مشکل دور میں جان بچانے سے لے کر روزی کمانے تک میں آدھار پر مبنی یہی سسٹم لاکھوں کروڑوں ہم وطنوں کے لیے سنجیونی ثابت ہوا ہے۔ اگر رازداری کے سوال پر حکومت نے اپنے پیر پیچھے کھینچ لیے ہوتے تو کووڈ وبا کی شکل مزید کتنی خوفناک ہوتی یہ تصور سے بھی بالاتر ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ذاتی رازداری کا حق سبھی کو ہے، لیکن قومی مفاد اور سرکاری اسکیموں کے صحیح مستحقین کی صحیح پہچان کی ضرورت سے بھی کیسے منھ موڑا جاسکتا ہے؟ یہ سب تبھی ہوگا جب حکومت کے پاس درست اعداد و شمار ہوں گے اور کامیابی کے امکانات بھی تبھی زیادہ ہوں گے جب حکومت کی معلومات درست ہوںگی۔ ویسے بھی ذاتی معلومات کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور اس معاملہ میں ابھی ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں جس کی بنیاد پر اس ذمہ داری کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے۔ اس کا مقابلہ اگر فیس بک، وہاٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا سے کیا جائے تو اوّل تو اس کے یوزرس ہی ذاتی معلومات ہی نہیں، ’ذاتی لمحوں‘ کی معلومات تک کو کھلے عام شیئر کرتے نظر آتے ہیں۔ اس پر ان معلومات کا تحفظ بھی کتنا ’ناقابل تسخیر‘ ہے، اس کی عوامی نمائش ہم کئی مواقع پر دیکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حیرانی کی بات ہے کہ رازداری کے تعلق سے اپوزیشن پارٹیاں ان سوشل پلیٹ فارم کو گھیرنے میں نہ اتنی الرٹ نظر آتی ہیں، نہ ہی جارح، جتنی وہ حکومت پر نظر آتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ذمہ داری اور جواب دہی کی سطح پر دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن رازداری کے غلط استعمال کا خطرہ تو دونوں ہی جگہ یکساں ہے۔
اس سب کے باوجود انتخابی اصلاحات کے تعلق سے کی گئی حکومت کی یہ کوشش قانونی پیچیدگیوں میں نہیں الجھے گی، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ سال2015میں بھی الیکشن کمیشن نے ووٹر کارڈ کو آدھار سے جوڑنے کی اسکیم پر کام شروع کیا تھا۔ لیکن کچھ ہی ماہ بعد جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اس اسکیم پر پابندی لگ گئی تھی۔ ماہرین قانون کے مطابق اس مرتبہ بھی قواعد کو پروان چڑھانا آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ نئے بل میں عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کرنے کا جو التزام ہے، اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ دراصل اس بل کے قانون بننے یا نہ بننے کی سمت طے کرنے میں سپریم کورٹ کے ہی دو فیصلے اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ ستمبر2018میں سپریم کورٹ نے آدھار نمبر کو آئینی طور پر درست بتاتے ہوئے سرکاری اسکیموں میں اس کے استعمال کو منظوری دی تھی۔ بڑا پینچ یہ ہے کہ چوں کہ حکومت نے اس وقت کورٹ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ آگے اس کا منصوبہ آدھار کو ووٹر لسٹ سے بھی جوڑنے کا ہے، اس لیے کورٹ کے فیصلہ میں بھی اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ ووٹر کارڈ کو بھی آدھار کارڈ سے جوڑا جاسکتا ہے۔ دوسرا اہم فیصلہ اس سے ایک سال قبل اگست 2017 میں آیا تھا جب سپریم کورٹ نے رازداری کے حق کو بنیادی حق تسلیم کرتے ہوئے لوگوں کی مرضی کے بغیر ان کی ذاتی معلومات عوامی نہ کرنے کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے باوجود جب حکومت نیا بل لانے کی کوشش میں ہے تو اس کی قانون سازی کی طاقت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
بیشک، آدھار کو ووٹر کارڈ سے جوڑنے کے پیچھے حکومت کی منشا ’ون انڈیا-ون ووٹ‘ کے خواب کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے صحت مند اور شفاف جمہوریت کے خیال کو نئی جہت دینے کی ہو، لیکن اس کے لیے اعتماد بحال کرنا اور متعلقہ خدشات کو دور کرنا بھی اس کی ہی ذمہ داری ہے۔ تجربہ کی بنیاد پر شاید یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ سماج کے کچھ خاص طبقات کو چھوڑ کر عام شہریوں کو اس بل سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ سم اور پین کارڈ کے معاملہ میں ہم پہلے بھی یہ دیکھ چکے ہیں۔ عام خیال یہی کہتا ہے کہ اگر آپ کوئی غلط کام نہیں کررہے ہیں تو ذاتی معلومات کا کوئی کیا غلط استعمال کرلے گا؟ لیکن تکنیک کے اس دور میں ہم نے کئی تصورات کو منہدم ہوتے بھی دیکھا ہے۔ اس لیے پارلیمنٹ سے پاس ہوجانے کے باوجود نئے بل پر اٹھ رہے سوالات کو نظرانداز بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔امید کی جانی چاہیے کہ حکومت پہلے کی ہی طرح اس بل کی ’سیرت‘ اور اپنی ’نیت‘ پر اٹھ رہے تمام طرح کے سوالات کے معقول جواب ضرور دے گی۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS