بی جے پی آخر بنگال میں ممتا سے کیوں پریشان ہے؟

0

قربان علی

مغربی بنگال میں ہورہے اسمبلی انتخابات اس معنی میں کافی اہم ہیں کہ یہ نہ صرف ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے بلکہ ملک کی سیاست کو بھی ایک نئی راہ دکھائیں گے اور انہی انتخابات میں یہ بھی فیصلہ ہوگا کہ آیا ہندوستان بی جے پی کے ہندوتو ایجنڈے پر چلے گا یا اس کا کوئی دوسرا متبادل بھی ہوسکے گا۔
مغربی بنگال میں27فیصد مسلم آبادی ہے۔ یہاں مسلم ووٹ 185اسمبلی حلقوں میں معنی رکھتے ہیں۔ ریاست اسمبلی کی 125سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد20فیصد سے زیادہ ہے اور 59سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹر40فیصد سے زیادہ ہیں۔ اس طرح سمجھا جاتا ہے کہ ریاست کی 100سے 110سیٹوں پر مسلم ووٹر فیصلہ کن حالت میں ہیں اور ریاست کے تین اضلاع مرشدآباد، مالدہ اور شمالی دیناج پور سمیت 46اسمبلی سیٹوں پر مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ اسی مسلم ووٹ بینک کے ذریعہ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت والے بایاں محاذ نے 1977سے لے کر 2011تک یعنی 34برس تک مغربی بنگال پر راج کیا۔ لیکن ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس نے 2011میں بایاں محاذ کے اس مسلم ووٹ بینک میں نقب لگادی اور اسی ووٹ بینک کے ذریعہ وہ پہلے 2011اور پھر2016میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 2016میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس نے 294سیٹوں میں سے 211سیٹوں پر فتح حاصل کی اور اس میں سے اس کے اکیلے 29مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ لیکن اس مرتبہ ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کو چوطرفہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ووٹروں کی اکثریت اس مرتبہ ممتابنرجی سے دور ہوکر کانگریس-بایاں محاذ اور اویسی کے ساتھ جاتی ہے یا ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اگر ممتابنرجی کی اقتدار میں تیسری مرتبہ واپسی ہوتی ہے تو اس میں مسلم ووٹروں کا رول اہم ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی ہندو پولرائزیشن کی اپنی تمامتر کوششوں اور دلت پناہ گزینوں کے درمیان اپنی مقبولیت میں اضافہ کے باوجود اقتدار حاصل کرنے کے لیے ابھی بھی جی توڑ کوشش کررہی ہے لیکن اکثریت کے اعدادوشمار چھوپانا ابھی بھی اس کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہورہا ہے۔

2006میں مرکزی حکومت کے ذریعہ تشکیل دی گئی سچرکمیٹی کی رپورٹ میں بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت کو ہولناک قرار دیا گیا تھا۔ سچرکمیٹی کی رپورٹ میں روزگار اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں مسلمانوں کے ساتھ تفریق اور انہیں الگ تھلگ رکھے جانے کا تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آبادی کے لحاظ سے جن دو ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ان میں مغربی بنگال اور آسام میں مسلمانوں کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں۔ مغربی بنگال میں 15برس قبل سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب صرف2.1فیصد تھا جو پورے ملک کے مقابلہ میں سب سے کم تھا اور بنگال میں مسلمانوں کی معاشی-تعلیمی حالت دلت اور پسماندہ ہندو ذاتوں سے بھی خراب تھی۔ لیکن سچرکمیٹی کی تشکیل کے بعد مغربی بنگال کے مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں میں تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
این ایس ایس او-روزگار-بے روزگاری سروے (EUS) 2005, 2012اور PLFS (Periodic labor force survey)2018 کے مطابق، بنگال میں سرکاری اورپبلک سیکٹر کے روزگار میں مسلم نمائندگی 2006میں 6.7فیصد سے بڑھ کر 2012میں 9فیصد اور 2018میں 17فیصد ہوگئی۔ یہ اضافہ ہندو اعلیٰ ذاتوں کی قیمت پر ہوا، جن کی حصہ داری 2006میں سرکاری ملازمتوں میں 63فیصد سے کم ہوکر 2012میں 53فیصد اور 2018میں 47فیصد رہ گئی۔ دوسری جانب سرکاری ملازمتوں میں دلتوں کی حصہ داری تو 20فیصد قائم رہی جب کہ آدی واسیوں کی حصہ داری کا تناسب جو 2005میں محض3.5فیصد تھا 2018میں بڑھ کر 6.9فیصد ہوگیا۔ تعلیم کے شعبہ میں بھی بنگال میں مسلمانوں نے حالیہ برسوں میں اچھی ترقی کی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے اکھل بھارتیہ سروے کے مطابق، 2012-13میں بنگال میں کالج کے اساتذہ میں مسلمانوں کا فیصد3.12اور 2018-19میں 7.8فیصد تھا لیکن یہ تناسب 2018-19میں تقریباً دوگنا ہوگیا۔
مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کا بڑا حصہ پسماندہ یعنی ’’پسماندہ ذاتیں‘‘ ہیں جنہیں منڈل کمیشن کے ذریعہ سرکاری ملازمتوں میں دیے گئے ریزرویشن کا فائدہ بھی ملا ہے۔ سرکاری اور پبلک سیکٹر کے روزگاروں میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ممتابنرجی نے سرکاری ملازمتوں میں دیگر پسماندہ ذاتوں(او بی سی) کا ریزرویشن 10فیصد سے بڑھاکر17فیصد کردیا اور تقریباً 99مسلم ذاتوں کو دیگر پسماندہ ذاتوں(او بی سی) کی فہرست میں شامل کردیا۔
اس کا فائدہ صرف ممتابنرجی کو ہی سیاسی طور پر نہیں ہوا بلکہ بدلہ میں مسلمانوں کو بھی سیاسی حصہ داری ملی۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ2018میں کولکاتہ کا میئر ایک مسلمان منتخب کیا گیا۔ اسمبلی میں 2001میں جہاں مسلمانوں کی نمائندگی 14.3فیصد تھی، وہیں 2011اور2016میں یہ بڑھ کر 20فیصد ہوگئی اور مسلم کمیونٹی کے کئی ممبران پارلیمنٹ جن میں خواتین بھی شامل ہیں لوک سبھا کے لیے منتخب کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی جہاں ایک جانب ہندو پولرائزیشن کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے، وہیں ممتابنرجی کی حکومت کو ’’30فیصد‘‘(مانیں مسلمانوں) کی حکومت کہہ کر ’’مغربی بنگال کو مغربی بنگلہ دیش‘‘ بننے سے روکنے کے نام پر بھی ووٹ مانگ رہی ہے۔
ممتابنرجی کو اس مرتبہ چیلنج صرف بی جے پی سے ہی نہیں ہے۔ اسے بایاں محاذ-کانگریس اور انڈین سیکولر فرنٹ(آئی ایس ایف) کے متحدہ محاذ اور کچھ سیٹوں پر اسدالدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) سے بھی سخت مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے مسلمانوں سے اپنے ووٹوں میں تقسیم نہ ہونے دینے کی اپیل کی تھی جس کے سبب انہیں الیکشن کمیشن کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ بایاں محاذ -کانگریس اور آئی ایس ایف کے متحدہ محاذ نے ریاست کی 294سیٹوں میں سے 66سیٹوں پر مسلم امیدوار اتارے ہیں جبکہ اویسی سات سیٹوں پر اپنے امیدواروں کو الیکشن لڑوا رہے ہیں۔
دراصل تقریباً 60مسلم اکثریتی اسمبلی نشستوں پر، جہاں مسلمان 40فیصد سے زیادہ ہیں، ٹی ایم سی، متحدہ محاذ اور بی جے پی کے مابین سہ رخی مقابلہ ہے۔ جنوب 24 پرگنہ، شمال24پرگنہ اور ہگلی کے کچھ انتخابی حلقوں میں، جو کبھی بایاں محاذ کے گڑھ تھے اور جن علاقوں میں مسلم مذہبی رہنما/عالم عباس صدیقی کو حمایت حاصل ہے، لڑائی بایاں محاذ اور ٹی ایم سی کے مابین ہے۔ ٹی ایم سی نے 2019میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کے دوران ان علاقوں سے 14سیٹوں میں سے 11سیٹیں جیتی تھیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ 2016میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کا ووٹ شیئر 10.2 فیصد تھا جو 2019کے لوک سبھا انتخابات میں بڑھ کر 41فیصد ہوگیا۔ جب کہ ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کا ووٹ شیئر جو 2016میں تقریباً 44فیصد تھا 2019کے لوک سبھا الیکشن میں بھی معمولی گراوٹ کے ساتھ43فیصد رہا۔ جب کہ بایاں محاذ کا ووٹ 27فیصد سے کم ہوکر محض7.5فیصد رہ گیا۔ ظاہر ہے بی جے پی، بایاں محاذ کے تقریباً 20فیصد ووٹ اپنے حصہ میں کرنے میں کامیاب رہی۔ اس لیے بایاں محاذ اور کانگریس اس مرتبہ مسلم عالم عباس صدیقی کی حمایت سے اپنے ووٹ شیئر میں اضافہ کرنے کی سوچ رہے ہیں اور ظاہر ہے ان کی نظر سب سے زیادہ مسلم ووٹ بینک پر ہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ووٹروں کی اکثریت اس مرتبہ ممتابنرجی سے دور ہوکر کانگریس-بایاں محاذ اور اویسی کے ساتھ جاتی ہے یا ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ اگر ممتابنرجی کی اقتدار میں تیسری مرتبہ واپسی ہوتی ہے تو اس میں مسلم ووٹروں کا رول اہم ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی ہندو پولرائزیشن کی اپنی تمامتر کوششوں اور دلت پناہ گزینوں کے درمیان اپنی مقبولیت میں اضافہ کے باوجود اقتدار حاصل کرنے کے لیے ابھی بھی جی توڑ کوشش کررہی ہے لیکن اکثریت کے اعدادوشمار چھوپانا ابھی بھی اس کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہورہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بی جے پی کے لیے بنگال میں اقتدار حاصل کرپانا آسان نہیں ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS