کیوں ٹوٹتی ہے ایک ہی طرف سے مذہب کی دیوار؟: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

محبت زندگی میں صرف رنگ نہیں بھرتی بلکہ وہ انسان کوجینے کا سبب اورحوصلہ بھی دیتی ہے،محبت ہی ایک ایسی ڈور ہے جس میں ہم بندھے ہوئے ہیں،ہمارا ایک دوسرے سے تعلق اس غیر بدیہی دھاگے سے بندھا ہوا ہے،معاشرہ کی شہ رگ یہی محبت ہے۔لفظ محبت اور اس کے معانی اس فرسودہ محبت سے بہت ماورا ہیں جو آج چلن میں ہے،جس پر ہر طرف سے بحث کی جا رہی ہے۔اس محبت کو ایک خاص چشمے اور نظریہ سے دیکھا جا رہا ہے۔کسی چیز کو دیکھنے کے زاویے میں تبدیلی کا مطلب ہے کہ یاتو معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے یا پھر اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس وقت اتراکھنڈ اس حوالے سے سرخیوں میں ہے،یہاںمحبت کے نام پراقلیتوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے،پورے علاقے میں دکان و مکان خالی کرنے کی دھمکی دے دی گئی ہے،پولیس اور انتظامیہ ہمیشہ کی طرح زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں،مگر حقیقت یہ ہے کہ خوف نے یہاں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔
محبت خوف میں ایک دم سے تبدیل نہیں ہوگئی ہے بلکہ اس کے لیے ایک خاکہ بنایا گیا ہے اور اس پر عمل کرکے اس مقام تک پہنچایا گیا ہے کہ وہ خوف وہراس میں تبدیل ہوجائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان ایک متنوع ملک ہے،جہاں ہزار چاہنے کے باوجود اقلیت اور اکثریت ندی کے دو کناروں کی طرح الگ نہیں ہوسکتیں،حالانکہ دائیں بازو کی تنظیمیں اس کے لیے پورا زور صرف کر رہی ہیں کہ دونوں بالکل الگ تھلگ ہوجائیں، ایسا کرنے کی ان کی خواہش کے پس پشت ایک خواب ہے جسے ’’ہندو راشٹر ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔وہ ہندوستان کو اسپین اور فلسطین بنانے کی خواہش رکھتے ہیں،جس کا بارہا ذکر بھی کیا گیا۔لیکن عام ہندو اور مسلمان اپنی حقیقی زندگی میں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں،ایک ساتھ دفاتر میں کام کرتے ہیں اور ان کے بچے ایک ساتھ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں،چونکہ ہندؤوں اور مسلمانوں کی بستیاں ملی جلی ہیں،خاص طور پرشہر کے قدیم علاقوں میں ان کے گھربھی ملے ہوئے ہیں،اب ضرور ایسا ہونے لگا ہے کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کی بستیاں اور کالونیاںالگ الگ بسنے لگی ہیںجو اسی خوف وہراس کاشاخسانہ ہے۔ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے تعلقات اور دوستی عام بات ہے، ایسے میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو مذہب کے ماننے والے بین مذہب شادی بھی کر لیتے ہیں مگر چونکہ معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا ہے، اس لیے غم و غصہ کا پایا جانا یقینی ہے۔
مذہب کے الگ اصول ہوتے ہیں اور ملک و قوم کے الگ،چونکہ مذہب آفاقی ہوتا ہے،اس لیے اس کے اصول بھی آفاقی ہوتے ہیں جبکہ ملک کا ایک دائرہ ہوتا ہے،اس کی جغرافیائی تحدید ہوتی ہے،جس میں رہنے بسنے والے افراد کی نفسیات اور ان کی ضروریات کے مطابق قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔آئین ہند نے ہر طبقہ اور مذہب کو اپنے مذہبی اصولوں پر کاربند رہ کرفرد کی آزادی کو تسلیم کیا ہے،وہ انسان کو اپنا غلام بنانے کے بجائے انسان کو اس کی انسانیت کے ساتھ بلکہ اس میں ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ نہ تو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کتابی یا کتابیہ کے علاوہ کسی غیر مسلم لڑکے یا لڑکی سے شادی کی جائے اور نہ ہی ہندو مذہب اور معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے لیکن ہمارے ملک کا قانون ضرور ہر بالغ مرد و عورت کے انفرادی حقوق و آزادی کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے جس سے چاہیں شادی کریں اور جس کے ساتھ چاہیں اپنی زندگی گزاریں۔اسی کا فائدہ اٹھا کر نئی نسل بین مذاہب شادی تک پہنچ جاتی ہے،جسے آئین تحفظ دیتا ہے مگر معاشرہ تسلیم نہیں کرتا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معاشرہ اگر اسے قبول نہیں کرتا ہے تو ہندو اور مسلم دونوں کے ساتھ اس کا رویہ یکساں ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے،اگر کوئی مسلم لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرلے تو اسے ’لوجہاد‘ کا نام دیا جاتا ہے اور اگر کوئی ہندو لڑکا مسلم لڑکی سے شادی کرلے تو مذہب کی دیوار منہدم ہوجاتی ہے اور محبت کی جیت ہوجاتی ہے۔معاشرے کا یہ دوہرا رویہ کیوں ہے؟اس کے دو بڑے اسباب ہیں۔پہلا سبب یہ ہے کہ ایک منصوبے کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو بدنام کیا جاسکے کہ وہ ہندوستان میں ’’ لوجہاد‘‘ کر رہے ہیں،لفظ جہاد اس کے ساتھ اسی لیے جوڑا گیا ہے تاکہ غیر مسلموں میں خوف پیدا ہواور وہ مسلمانوں سے دور رہیں،اسی طرح مسلمانوں کو اس کے ذریعہ ایسا پیش کیا جانا مقصود ہے کہ ان کے حواس پر صرف اور صرف ہوس سوار رہتی ہے،جس کی تکمیل کے لیے وہ ہندو لڑکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ایسا کرکے وہ اپنے منصوبے کے تحت ہندؤوں اور مسلمانوں کو دور کرنا چاہتے ہیں اور انگریزوں کی ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘پالیسی اختیار کرکے اپنی حکومت کی توسیع ہندوراشٹر تک کرنا چاہتے ہیں۔اس منصوبے کو کامیابی اور معاشرے میں قبولیت اس لیے ملی کیونکہ منصوبہ ساز حکومت میں ہیں اور میڈیا آج ان کا غلام بن چکا ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ حکومت سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرے اور اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرے،چونکہ حکمرانوں کو میڈیا کی طاقت کا اندازہ ہے، اس لیے اس نے سب سے پہلے میڈیا کو ہی اپنا ہمنوا بنایا ہے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ اگر میڈیا چاہے تو رات کو دن اور دن کو رات ثابت کردے اور لوگ اس کی بات کو مانیں گے۔
اس کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی اس ’’محبت ‘‘ کو ہی میڈیا نے دو نظریے دے دیے ہیں۔سیتاپور میں ایک مسلم لڑکی نے جب ہندو لڑکے سے شادی کی تو ایک نیوز چینل نے 7جون کو یہ سرخی لگائی ’’مذہب کی دیوار توڑ کر مسلم دوشیزہ نے ہندو لڑکے سے رچائی شادی، روبیہ سے بنی رجنی‘‘اور خبر کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے ’’محبت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، پیار کی خاطر لوگ مذہب کی دیواریں توڑ اپنے ساتھی کو پانے کی ہر کوشش کرتے ہیں۔‘‘بہار کے ویشالی میں بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا تو ایک مشہور اخبار نے اس سرخی کے ساتھ خبر شائع کی ’’ٹوٹی مذہب کی دیوار،بابا باگیشور سے متاثر رخسانہ نے رکمنی بن کر ہندو دوست سے رچا لی شادی۔‘‘ اور خبر کی ابتدا دیکھئے ’’کہتے ہیں کہ دھڑکنوں کی پٹری پر محبت کی ٹرین چلتی ہے تو راہ میں آنے والی مذہب کی دیواریں ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں‘‘۔
اس کے برعکس اترا کھنڈ میں ہوئے واقعہ کو ہندی کے دو مشہور اخبارات نے ’’اترا کھنڈ میں تھم نہیں رہے ’لوجہاد‘ کے معاملے‘‘اور ’’اتراکھنڈ میں 50 فیصد بڑھ گئے لڑکیوں کوبہلا کر لے جانے کے معاملے، 5مہینے میں درج ہوئے 48معاملے‘‘کی سرخی کے ساتھ شائع کیا ۔ محبت تو دونوں نے کی مگر میڈیا نے دونوں کو نہ صرف الگ الگ چشمے سے دیکھا بلکہ معاشرے کو اسی طرح دیکھنے پر مجبور کیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے میں محبت کی جگہ نفرت نے لے لی۔
ایک طرف اکثریت کا ایک ٹولہ ہے جو اجتماعیت کا بہانہ بناکر اقلیتوں کو تاراج کردینا چاہتا ہے،جس کا ساتھ میڈیا پوری طرح سے دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف اقلیت ہے جو خوف و ہراس کے سائے میں جی رہی ہے،اس کا ساتھ دینے کے لیے اس کے اپنوں نے ابھی تک زبان نہیں کھولی ہے،وہ افراداور شخصیات جو قوم وملت کے غم میں گھلے جا رہے ہیں شاید حقیقی طورپر وہ گھل کر اپنا وجود معدوم کرچکے ہیں، وہ اپنی آرام گاہوں میں سکون سے قوم کا غم منا رہے ہیں، جب اتراکھنڈ کے اس علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کا یہاں سے اخراج ہوجائے گا اور وہ بے گھر ہوجائیں گے تو چند لوگوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر خود کو مسیحا ثابت کرنے کے لیے خود ساختہ ہمدردان قوم وملت باہر آجائیں گے چونکہ ابھی پی آر کے بجائے حقیقی لڑائی لڑنا ہے،مسلمانوں کو اور ان کے بچوں کو تباہ و برباد ہونے سے بچانا ہے، اس لیے ان کو خوف ہے کہ کہیں گرم لو کے تھپیڑے ان کے نازک بدنوں کو جھلسا نہ دیں۔
میڈیا،حکومت اور ایجنڈائی لوگوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ نفرت کی جس راہ پر ملک کو لے جا رہے ہیں، اس سے ملک کا نقصان ہی ہوگا،ملک کی اقلیت اگر تباہ و برباد ہوگی تو اس کا براہ راست اثر ملک کی ترقی پر ہوگا،اگر جسم کا کوئی حصہ ناکارہ کردیا جائے تو اس کے اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں اور وہ اپنی فطری کارکردگی کا کبھی مظاہرہ نہیں کرسکتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS