پہلے چھوٹے بچے کیوں جائیں اسکول

سائنسی شواہد بتا رہے ہیں کہ پرائمری اسکول پہلے کھولے جانے چاہیے، جب کہ اپنے یہاں کم و بیش سبھی ریاستیں اس کے برعکس راستہ پر چل رہی ہیں

0

چندر کانت لہریا

ہندوستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے، جہاں کووڈ-19وبا کے دوران سب سے طویل مدت کے لیے اسکول-کالج بند رہے ہیں اور سب سے آخر میں اسکولوں کو کھولنے پر عمل کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ کافی جدوجہد کے بعد بیشک کچھ ریاستوں نے اسکول کھولنے کی شروعات کی ہے، لیکن یہ ردعمل کافی آہستہ نظر آرہا ہے اور اس میں کئی اگر-مگر ہیں۔ ریاستوں کے اسکول کھولنے سے متعلق فیصلے وبائی امراض(epidemiology) سے ملے سبق کے بجائے، ذاتی رائے اور ’عملی ذہانت‘ سے کہیں زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ مثلاً سائنسی شواہد بتارہے ہیں کہ پرائمری اسکول سب سے پہلے کھولے جانے چاہیے، لیکن اپنے یہاں کم و بیش سبھی ریاستیں اس کے برعکس راستہ پر چل رہی ہیں۔ وہ بڑی کلاسز کو پہلے شروع کررہی ہیں اور پرائمری کلاسز سب سے آخر میں۔ آئیے سمجھتے ہیں کہ آخر کیوں پرائمری اسکولوں کو سب سے پہلے کھولنا چاہیے؟
پوری دنیا سے دستیاب اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ سبھی عمر کے گروپوں کے لیے اسکول کھول دینے چاہیے، کیوں کہ بچوں میں کورونا کا خطرہ بھلے ہی بالغوں کی طرح ہوتا ہے، لیکن بالغوں کے مقابلہ میں ان میں درمیانے درجہ سے شدید بیماری کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی سائنسی وجہ یہ ہے کہ بچوں میں اے سی ای-2ریسیپٹرس(کوورنا وائرس کے پھیپھڑوں میں داخل کرنے میں مددگار) مکمل طور پر ڈیولپ نہیں ہوتا۔ اس لیے بچے متاثر ہونے کے باوجود سنگین طور پر بیمار نہیں پڑتے۔ اس کے علاوہ تمام طرح کے ایسے ثبوت بھی موجود ہیں، جو بتاتے ہیں کہ اسکولوں کے کھلنے سے بچوں میں انفیکشن کا خطرہ نہیں بڑھتا۔ اسکول ’سپر-اسپریڈنگ‘(جہاں سے غیرمتوقع طور پر کثیر/بڑی آبادی کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو) نہیں ہوتے اور ذاتی طور پر سیکھنے کے فائدے بھی کہیں زیادہ ہیں، اسی لیے جولائی2021تک دنیا کے 175سے بھی زیادہ ممالک میں اسکول کھل گئے تھے۔ اور یہ اسکول تب کھلے جب 12سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے دنیا میں کہیں بھی ٹیکہ کاری کی شروعات نہیں ہوئی ہے۔
اس کے برعکس، اپنے یہاں کئی لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ بچوں کو اسکول تبھی بھیجنا چاہیے، جب ان کو ٹیکہ لگ جائے۔ جب کہ دنیا کے تمام ماہرین یہی بتاتے ہیں کہ اسکول کھولنے کے لیے ٹیکہ کاری کی کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے۔ 12سے 17سال کے بچوں کو اگر کچھ ممالک میں ٹیکے لگائے بھی جارہے ہیں تو ان کے خطرہ اور دوسری دیگر بیماریوں میں ان کے مبتلا ہونے کے سبب۔
حقیقت میں بچوں میں کورونا کا خطرہ فطری طور پر کم ہوتا ہے۔ عالمی عمرکے لحاظ سے اعدادوشمار(global age-wise data) کے مطابق، درمیانے درجہ سے شدید بیماری کا خدشہ اور شرح اموات انگریزی حرف تہجی(الفابیٹ) ’J‘ جیسا خمیدہ ہوتا ہے۔ اس گھماؤدار میں پیدائش سے 18برس کے سبھی بچوں میں بالغوں کے مقابلہ میں کافی کم خطرہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی 10برس کے بچے ’جے‘ کا سب سے نچلا حصہ بناتے ہیں، جن پر خطرہ سبھی عمر کے گروپوں میں سب سے کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہر بدلتے سال میں خطرہ دونوں سمتوں میں بڑھتا جاتا ہے-9سال سے نیچے نوزائیدہ تک، ساتھ ساتھ 11سال سے اوپر جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے۔ اس طرح جو بچے پرائمری اور اپرپرائمری اسکولوں میں ہیں، یعنی 6سے 14سال عمر کے گروپ کے بچے ’جے‘ جیسے خمیدہ کی بنیاد کے آس پاس کے ہیں، انہیں کورونا کا خطرہ سب سے کم ہے۔
پھر ہمیں بچوں کی پڑھائی کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ جو بچے پرائمری اسکولوں، خاص طور پر پہلی یا دوسری کلاس میں ہیں، ابھی-ابھی اسکول کی تعلیم میں شامل ہوئے ہیں اور حرف تہجی یا نمبر سیکھ رہے ہیں، انہیں کہیں زیادہ ذاتی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان بچوں کو بہت محدود وقت تک کمپیوٹر یا موبائل اسکرین پر کام کرنے کی صلاح بھی ماہرین دیتے ہیں۔ ہاں، سینئر کلاس کے بچوں میں پڑھنے-سیکھنے کی صلاحیت اتنی ہوتی ہے کہ وہ خود سے مطالعہ کرسکیں اور ان کا ’اسکرین ٹائم‘ بھی زیادہ رکھا جاسکتا ہے۔

صحت اور تعلیم دونوں نظریہ سے دیکھیں تو وبا کا سب سے زیادہ نقصان انہیں (بچوں کو، خاص طور پر پرائمری اسکول کے طلبا کو) کا ہونے جا رہا ہے، جن پر وبا کا خطرہ سب سے کم ہے۔ ہندوستان نے کووڈ-19سے متعلق فیصلے لینے میں ڈاٹا، سائنس اور وبائی امراض کے تجربات کے استعمال کے کئی مواقع گنوائے ہیں۔ مگر ہمارے پالیسی ساز چاہیں تو اسکولوں کو کھولنے کے فیصلے میں ان کا بامعنی استعمال کرسکتے ہیں۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ شروعاتی برسوں میں ہی اگر تعلیم میں کوئی رکاوٹ آجائے تو اس کا اثر طویل عرصہ تک قائم رہتا ہے۔ ان برسوں میں ’لاس آف لرننگ‘ یعنی سیکھنے کے نقصان کا مطلب ہے، بعد کی کلاسز میں بچوں میں اس سطح کی سمجھ کا نہ بننا، جتنی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ نتیجتاً وہ سمجھ کی سطح پر پیچھے ہوسکتے ہیں اور پڑھائی لکھائی سے توبہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے ابتدائی کلاسوں میں بچوں کی اسکول میں واپسی کو ترجیح دینا چاہیے۔ اگر اس پر اب بھی توجہ نہیں دی گئی تو صنف، معاشرتی-معاشی حیثیت اور جغرافیائی علاقوں کے سبب پہلے سے موجود تعلیمی عدم مساوات اس ’لرننگ لاس ‘ سے کہیں زیادہ گہری ہوجائے گی۔
تعلیم کے ذاتی اور معاشرتی دونوں طرح کے فائدے ہیں۔ اچھی نوکری اور خاندان کی آمدنی میں اضافہ جیسے اس کے ذاتی فائدے ہیں اور ہنرمند لیبرفورس، ورک پروڈکٹیوٹی میں اضافہ اور ملک کی معاشی ترقی میں تعاون جیسے اس کے معاشرتی فائدے بھی ہیں۔ وبا کے دوران اسکولوں کے بند ہونے کا اثر تو آنے والے برسوں میں پتا چلے گا، لیکن اگر اس پر فوراً توجہ نہیں دی گئی تو لوگوں کو غریبی سے باہر نکالنے اور جی ڈی پی میں اضافہ میں تیزی لانے کی ہندوستان کی کوششوں پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔
ظاہر ہے صحت اور تعلیم دونوں نظریہ سے دیکھیں تو وبا کا سب سے زیادہ نقصان انہیں(بچوں کو، خاص طور پر پرائمری اسکول کے طلبا کو) کا ہونے جارہا ہے، جن پر وبا کا خطرہ سب سے کم ہے۔ ہندوستان نے کووڈ-19سے متعلق فیصلے لینے میں ڈاٹا، سائنس اور وبائی امراض کے تجربات کے استعمال کے کئی مواقع گنوائے ہیں۔ مگر ہمارے پالیسی ساز چاہیں تو اسکولوں کو کھولنے کے فیصلے میں ان کا بامعنی استعمال کرسکتے ہیں۔ کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں؟
(مضمون نگار پبلک پالیسی اینڈ
ہیلتھ سسٹم کے اسپیشلسٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS