زین شمسی
میرے ایک دوست نے مجھ سے ازراہ مذاق کہا کہ مسلمانوں کے نوجوان دیگر مذاہب کے نوجوانوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، مگر ضعیف العمر مسلمان دیگر مذاہب کے ضعیفوں سے بہت زیادہ کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ میں نے ان کے مذاق کا مذاق مذاق میں ہی سروے شروع کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ حضرت نے بہت گمبھیر بات کہی تھی، غلطی میری تھی کہ میں نے ان کی بات کو مذاق سمجھ لیا تھا۔ گھر کے، پڑوسی کے، محلے کے اور پھر شہروں کی آبادیوں میں بیمار لوگوں کا پتہ یوں تو ڈاکٹرس کی کلینک میں لگی بھیڑ سے چل جاتا ہے یا پھر ایک دوسرے سے ملاقات کے دوران۔ ہم نے بھی اسی طرح اپنے سروے کو آگے بڑھایا تھا اور متحیر ہوتا رہا۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بیشتر امراض ڈاکٹروں کی کم علمی اور پیسہ کمانے کے لالچ کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں یا بڑھا دیے جاتے ہیں۔ اسپتال میں داخل ہونے کے بعد مریض اور ڈاکٹر کا رشتہ جیب اور سانس کا ہو جاتا ہے۔ جب تک جیب سے پیسہ نکلتا رہے گا، سانس چلتی رہے گی۔ شعبہ صحت آج کی دنیا کے سب سے بدعنوان شعبہ میں شمار ہونے لگا ہے۔ ہیلتھ انشورنش کی بہتات اس بات کی دلیل ہے کہ علاج نہ ہی سستا ہے اور نہ ہی آسان ہے۔ یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری تھی کہ دوران لاک ڈاؤن ان حاملہ عورتوں کی بھی نارمل ڈلیوری ہوئی جن کے تین سے چار بچے نکالنے کے لیے ڈاکٹروں نے پیٹ چیرنا ضروری سمجھایا تھا۔ بہرحال یہ تو عملہ صحت کا پروفیشنل ازم ہے، مگر میں اسپتال جانے سے پہلے کے مرحلہ پر اپنی بات یہ کہہ کر رکھنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اسپتال جانے کی نوبت اس لیے آتی ہے کہ ہم پوری بھرپور زندگی گزارنے کے خواہش مند لوگ پوری زندگی اپنی جسمانی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہتے ہیں۔ خاص کر غذا کے معاملے میں بے حسی اور غیر سنجیدگی عام ہے۔
بے لاگ کہوں تو یہ کہنے میں دریغ نہیں کروں گا کہ غیر قومیں جینے کے لیے کھاتی ہیں اور ہم کھانے کے لیے جیتے ہیں۔ وہ پیٹ کے لیے کھاتے ہیں، ہم زبان کے لیے کھاتے ہیں۔ ہم مقوی غذا نہیں کھاتے ہیں، مزیدار غذا کھاتے ہیں۔ وہ لوگ کھانا کھا کر قومی و تعلیمی سطح کی بحث کرتے ہیں اور ہم تعلیمی و قومی بحث کے سمینار و سمپوزیم میں بھی قورمہ و بریانی کو ہی موضوع بحث بنا لیتے ہیں۔ میں نے کم از کم اپنے سارے جاننے والے غیر قوم کے دوستوں کوکھانا کو موضوع بنا کر بحث کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ کالج سے نکلتے ہوئے ہمارے کلیگس جہاں ساگ، گوبھی، سیم ، مولی ، گاجر کی اہمیت و افادیت بتاتے ہوئے سبزیاں خریدتے ہیں، وہیں گوشت کی برائیاں بتاتے ہوئے ہم چکن، مچھلی اور مٹن خرید کر بے جا خرچ خوشی کے ساتھ کر جاتے ہیں۔ میرے ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ غریب سے غریب مسلمان بھی امیر سے امیر ہندو سے اچھا کھاتا ہے اور انہیں اس پر فخر بھی ہے۔ ویسے کھانا کے معاملے میں میرے سب سے عزیز دشمن حاجی حجت نے بہت پہلے کہا تھا کہ جس دن سے مسلمانوں کی پلیٹ سے بھینس اور تعلیم سے اردو کو چھین لیا جائے گا، مسلمان ترقی کر جائیں گے۔ بھینس اور بیف بی جے پی چھین رہی ہے اور اردو کو ختم کرنے کا ٹھیکہ اردو والے ہی اٹھا رہے ہیں۔ مبارک ہو قوم ترقی کرنے والی ہے۔ ایک اور جگہ انہوں نے بے دینی جملے ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میدان حشر میں یہ حکم نامہ جاری ہو کہ جس نے اپنی زندگی میں جو کھایا ہو وہ نکال دے تو ہر مسلمان کے پیٹ سے ہزاروں بھینسیں ، بکریاں، مرغیاں اور ایک دو اونٹ بھی جان بچا کر بھاگنے لگیں گے۔
دراصل مقوی غذا اور مصالحہ دار غذا کا فرق وہی ہے جو پیٹ اور زبان کا ہے۔ چٹ پٹی زبان کو پیٹ کی تکلیف سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ قوم کا دسترخوان دیکھ لیجیے تو گوشت کے کئی آئیٹمس مع تیل و چربی کے موجود رہتے ہیں۔ جبکہ دیگر قوموں کے افراد ہری سبزیوں کو بھی تیل، نمک اور مصالحہ سے دور رکھتے ہیں۔ سلاد ، دہی اور پھل ان کے لیے روزمرہ کی غذا ہے۔ ہمارے یہاں فروٹس اور ڈرائی فروٹس تبھی آزمائے جاتے ہیں جب گھر میں کوئی بیمار ہوتا ہے۔ مزہ کی بات یہ ہے کہ ماہ رمضان میں سب سے زیادہ کھلواڑ صحت کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس رمضان کو جسم کے اوور ہالنگ کے لیے فرض قرار دیا گیا، اسی رمضان کو سب سے زیادہ چٹپٹا بنا دیا گیا۔ افطار کے بعد جو دہن کھلا وہ سحری تک کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ظاہر ہے کھانے میں موجود کیلریز کی عدم جانکاری اور گوشت و مچھلی کو طاقتور ہونے کی ضمانت مل جانے والی سوسائٹی میں کھانے کی ترجیحات تنومند و صحت مند جسم کے لیے زہر ثابت ہوتی ہے۔
ہم تو یہ سوچ کر کھاتے ہیں کہ ہم اچھا کھانا کھا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہی اچھا کھانا ہمیں کھا رہا ہوتا ہے۔ جوانی میں جب جسم مضبوط ہوتا ہے۔ ہڈیوں میں جان ہوتی ہے، معدہ ، پھیپھڑا، کلیجی کسی بھی غذا کو پچانے کے لائق ہوتے ہیں، تب تک سب کچھ مزے مزے کا ہوتا ہے اور جب یہ سب اعضا کمزور ہونے لگتے ہیں تب یہی تیل، مصالحہ گوشت ، نلا اسے مزید کمزور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تب ایک ایک کر کے ساری بیماریاں ابھرنے لگتی ہیں اور جسم میں کسی بھی بیماری سے لڑنے کی جو صلاحیت موجود ہوتی ہے اس کا ہر سیل مر جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کی عمر آتے آتے بیڈ پر چلا جانا عام ہوچکا ہے۔ اگلے زمانے میں کم از کم غذائی اشیا ملاوٹ سے پاک ہوا کرتی تھیں۔ دودھ و گھی خالص ہوا کرتا تھا، تیل و مصالحہ کھیتوں سے نکل کر سیدھے گھروں تک آجاتا تھا تب پرانے زمانے کے لوگ سنچری مار لیا کرتے تھے ، لیکن اب ملاوٹی چیزیں کھا کر ہم سب کتنے دنوں تک جیتے ہیں۔ آپ خود اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔70کے بعد لاتعداد بیماریوں کو گھسیٹتے ہوئے اسپتال در اسپتال بھٹکتے ہیں اور وہاں ڈونیشن اور ریزرویشن والے ڈاکٹر آپ کی کم آپ کے اکاؤنٹ کی سرجری کے لیے اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب وہ ڈاکٹر نہیں ہیں جو نبض دیکھ کر مرض پکڑ لیا کرتے تھے اب تو امریکہ اور لندن والے ڈاکٹر ہیں جو ایکسرے، سی ٹی اسکین، ای سی جی، ایکو اور ایم آر آئی کرانے کے باوجود مریض کو وینٹی لیٹر پر لے جانے کا ہمدردانہ مشورہ دیتے ہیں۔
اپیل ہے کہ زندگی کو جلا بخشنے کے لیے زندگی میں ایک روٹین بنائیے۔ کس وقت کھانا ہے، کیا کھانا ہے، کیسے کھانا ہے، کھانے کے کتنے وقت کے بعد پانی پینا ہے۔اگر چوبیس گھنٹے میں کم از کم ایک گھنٹہ اپنے جسم کو توانا رکھنے میں نہیں لگائیں گے تو مرتے وقت آپ کی روح آپ کی تعریف نہیں کرے گی، کیونکہ جسم روح کا کمرہ ہے اور روح کے کمرے کو بدبودار نہ کریں۔ صحت مند رہیں ، خوشحال رہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]