شاہنوازاحمد صدیقی
امریکہ اورمغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملہ کی توقع نہیں کررہے تھے اور ان کو جارج ملک کے عزائم کا اندازہ نہیں تھا او رنہ ہی ان کو توقع تھی کہ یوکرین تنازع اس قدر سنگین اور طویل ہوجائے گا کہ یوروپ کے بڑے اور باثر ممالک توانائی اور افریقہ اور ایشیا کے ممالک میں غذائی بحران اس قدر شدید ہوجائے گا۔ فرانس میں پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کے وسائل کی تقسیم کو لے کر ہونے والی مارا ماری نے احساس کرا دیا ہے کہ آئندہ چند ماہ یوروپ اور دیگر مغربی ممالک کے لیے مشکلات والے ہوسکتے ہیں۔ یہ بحران یہ صرف یوروپ اور افریقہ میں عام وخاص کو پریشان کیے ہوئے ہے بلکہ روز مرہ کی زندگی کو متاثر کرنے کے ساتھ موجودہ عالمی نظام کو بھی متاثر کررہا ہے۔
سعودی عرب سمیت مغربی ایشیا کے کئی ممالک نے اب امریکہ یایوروپی ممالک (جنہوںنے عالم اسلام کو درپیش مسائل پر کبھی بھی انصاف اور فلاح عام کو اہمیت نہیں دی)اور محض اپنے دفاعی، اقتصادی اور سامراجی مفادات، کو ہی اہمیت دی ہے اور مقدم رکھا ہے، کا دم چھلہ بننے کے لیے تیار نہیں ان ممالک کے قول وعمل سے بالکل واضح ہوگیا ہے کہ یک قطبی نظام میں ناٹو نے بدترین جارحتیں کی ہیں اور گزشتہ تقریباً 25سال کی مدت میں ملکوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں اور فوجی کارروائیاں کی ہیں ۔ یوکرین تنازع میں اگرچہ روس جارح ہے اور اس کا یوکرین پر حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی نامناسب اورناانصافی پر مبنی ہے۔ مگر اس تنازع سے پیدا ہونے والے حالات سے غیر متعلق ممالک (مغربی ایشیا کے توانائی پیدا کرنے والے ملک)کو ناٹو ممالک کی حکمت عملی کی پیروی کی کیا ضرورت ہے۔ وہ بھی اپنے مفادات اور حالات کو صرف نظر کرتے ہوئے مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ مسلم اور عرب ممالک اس کے سر میں سر ملائیں اور پٹرول کی پیداوار کو ان کی مرضی اوران کی مارکیٹ حساب سے طے کرے مگر پٹرول پیدا کرنے والے ممالک کے سب سے بڑے گروپ تنظیم اوپیک نے اپنے خطے میں عوام اور مارکیٹ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پٹرول کی پیدا وار کو کم کرنے کا اعلا ن کیا ہے یہ سخت اقدام کو اٹھائے ہیں۔ اوپیک کے ممبر ممالک بطور خاص پٹرول پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب نے دو ملین بیرل یومیہ کی تخفیف کرکے امریکہ کو ناراض کردیا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب پر الزام لگایاہے کہ وہ روس کا ساتھ دے رہا ہے۔ امریکہ نے براہ راست دھمکی دے دی ہے کہ اس کو (سعودی عرب)کو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
امریکہ کے بیان کو رد کرتے ہوئے سعودی عرب نے کہاہے کہ یہ فیصلہ اوپیک کا فیصلہ ہے اور خالص تجارتی مقاصد اور مارکیٹ کی صورت حال دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد سے مغربی ممالک کو لگنے لگاتھا کہ یہ جنگ دنیا اور بطور خاص یوروپ میں توانائی اور ایندھن کی سپلائی کا بحران پیدا کردے گی اس لیے امریکہ بطور خاص سعودی عرب اور دیگر اوپیک ممالک پر دبائو ڈالتا رہا ہے کہ وہ پیٹرول کی پیداوار کو بڑھا دے تاکہ اس بحران کی وجہ سے یوروپی اور دیگر ممالک میں توانائی کا بحران پیدا نہ ہو۔ روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پٹرول مصنوعات کی سپلائی متاثر ہوئی ہے اس وجہ سے پٹرول اور قدرتی گیس کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ یوروپ جو کہ کورونا وائرس کے بعد دوسرے براعظموں اور خطوں کی طرح اقتصادی کسادبازاری کا سامنا کررہا ہے ۔ اس کی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے اور اس لیے ناٹو اور امریکہ کی عالمی نظام پر اجارہ داری متاثر ہورہی ہے، اس صورت حال کو بدتر ہونے سے روکنے کے لیے امریکہ ’ پتلی گردن والے‘ عرب اور مسلم ممالک پر دبائو ڈال رہا تھا۔ امریکہ اور ناٹو ممالک ان ممالک کے حکمرانوں او رلیڈروں پر دبائو ڈال کر منمانی کرانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ عالم اسلام، انصاف پسندوں اور مظلوم عوام کے مفادات کو ناٹو ممالک نے مسلسل نظرانداز کیا ہے، جو بائیڈن کے صدربننے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میںکافی کشیدگی دیکھی گئی ، مگر یوکرین پر روس کے حملہ نے امریکہ کو مجبورکردیا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے۔ جوبائیڈن کے پچھلے دنوں دورہ مغربی ایشیا اور سعودی عرب اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کو اس خطے میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات سے اب لگنے لگاہے کہ شاید مغربی ممالک اور خارجی طاقتیں اس خطے میں اپنی مرضی نہ چلا پائیں۔
امریکہ سعودی عرب کے اس اقدام سے کس قدر جزبد ہے اس کا اندازہ وہائٹ ہائوس کے نیشنل سیکورٹی کو نسل کے ترجمان جان کربی نے سفارتی زبان کو بالائے طاق رکھ ناراضگی کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے اور سعودی عرب کے فیصلہ کو یوکرین کی مخالفت اور روس کی حمایت میں دبا گیا قدم قرار دیا ہے۔ انہوںنے کہا ہے کہ وزارت خارجہ توجہ ہٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ مگر حقائق بالکل واضح ہیں ’ دنیا یوکرین کے معاملہ پر روس کے خلاف برسر پیکار ہے۔
امریکہ کا سعودی عرب اور اوپیک ممالک کے اس قدر سے ناراض ہونا غیر فطری نہیں ہے۔ اس کے اس قدم کا امریکہ کی اندرونی سیاست پر اثرپڑ سکتا ہے کیونکہ آئندہ ماہ نومبر میں امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہونے ہیں اور امریکی کانگریس کے انتخابات جو بائیڈن کی جنگ پسندی اور پوری دنیا پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوششوں پر اثر پڑے گا۔
یوکرین تنازع کا عالمی سیاست پر براہ راست اور بہت گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ مغربی ممالک اس سے قبل ترکی کی مصالحت کی مدد سے یوکرین سے غذائی اجناس افریقہ اور مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں بھیجوانے کے روس کی خوشامد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ورنہ ان دونوں براعظموں میں قحط سالی کی وجہ سے فاقہ کشی کی نوبت آگئی تھی۔ روس نے ترکی کی مدد سے پٹرول اور قدرتی گیس کو یوروپ کے بالٹک ممالک میں سپلائی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ان ممالک میں روس کی قدرتی گیس کی سپلائی نورڈ اسٹریم گیس پائپ لائن Nord Stream Gas Piplineدھماکہ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوگئی تھی۔ روس یوکرین پر حملہ سے قبل یوروپ کو اس کی ضرورت کا تقریباً چالیس فیصد قدرتی گیس سپلائی کرتاتھا مگر مغربی ممالک کی پابندیوں کے سبب یہ سپلائی متاثر ہورہی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ ترکی کی گیس پائپ لائن جس کو Turk Stream gas Piplineکہتے ہیں کے ذریعہ بالٹک ملکوں قدرتی گیس کی سپلائی کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ lql