اسرائیل انتخابی نظام سے عربوں کا بھروسہ کیوں اٹھ گیا

0

یکم نومبر کو اسرائیل میں عام انتخابات کے لئے پولنگ ہوگی۔ یہ گزشتہ چار سال میں ہونے والی پانچویں پولنگ ہوگی مگر اسرائیل کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ پوچھنا شروع کردیا ہے کہ چھٹا الیکشن کب ہوگا۔ اس الیکشن میں بھی دیگر چار انتخابات کی طرح کوئی بھی پارٹی نہ تو مکمل اکثریت حاصل کرپائی ہے اور نہ ہی کوئی بھی سیاسی اتحاد ایک مستقل حکومت دے سکا ہے۔ یہ صورت حال اسرائیل کی معیشت اور عالمی سطح پر اس کے ’وقار ‘کوٹھیس پہنچا رہی ہے۔ ایک بڑے طبقے کا خیال ہے کہ پچھلی مرتبہ جب نفٹالی کی حکومت اقتدار سے باہر ہوئی تھی تو اس معزولی کا سبب عرب ممبرپارلیمنٹ کا حکمراں پارٹی سے حمایت واپس لینے کا فیصلہ تھا۔ مگر اسرائیل کے ووٹران نے 21فیصد کے قریب عرب ہیں یعنی یہ قلیل تعداد بھی اسرائیل کے سیاسی استحکام یہ عدم استحکام میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ پچھلی دفعہ نتن یاہو کی قیادت والا بلاک جس میں زیادہ تر دائیں بازو کی انتہاپسند اور مذہبی پارٹیاں شامل تھیں صرف اس وجہ سے برسراقتدار نہیں آیا تھا کیونکہ 120ممبران والے سنیٹیٹ کے الیکشن میں عربوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا تھا اور اس محاذ کے خلاف ووٹ ڈالا تھا۔ حالات یہ ہیں کہ 2019سے اب تک وہاں پر چار الیکشن ہوچکے ہیں اور تقریباً چار سال پر محیط دورمدت میں صرف ایک مرتبہ ہی ریاستی مکمل بجٹ پیش ہوسکا ہے۔ اسرائیل میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو عربوں کی کہی جاتی ہیں۔ ان میں دو پارٹیوں نے الگ راہ اختیار کی ہے اور شدید امکان ہے کہ اس دفعہ 21فیصد عرب متحد ہوکر ووٹنگ نہیں کرپائیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال سابق وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کی لکوڈ پارٹی کی قیادت والے محاذ کے لئے خوش آئند ہوسکتی ہے۔ دوعرب پارٹیاں دی فورتھ عرب پارٹی، دی اسلامک رائم نے الگ الگ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرکے یہودی انتہاپسندوںکے حوصلے بڑھا دیے ہیں۔ اسرائیل میں 120 ارکان والے ایوان میں 61سیٹیں اکثریت کہلاتی ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں ممبران پارلیمنٹ کا اعتماد نئی سرکار کی تشکیل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ پچھلی مرتبہ 2020 کے الیکشن میں عرب ووٹروں نے باہر نکل کر 64فیصد ووٹنگ کی تھی جبکہ اس کے بعد 2021کے الیکشن میں یہ تعداد گھٹ کر 45فیصد رہ گئی۔ یہ شرح ووٹنگ50ویں اور 60ویں دہائی کے ووٹران کی باہر نکلنے کے مجموعی فیصد سے بہت کم ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے مسلم ووٹروں میں ووٹ نہ ڈالنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ا س رجحان کے بڑھنے کا سبب یہ ہے کہ عربوں کا خیال ہے کہ سرکار کی پالیسیاں عربوںکے تئیں نسل پرستانہ ہے اورکوئی بھی سرکار آکر اسرائیل کے ڈی این اے کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی پالیسی پرکاربند رہتی ہے۔ پچھلے دنوں غزہ پر اسرائیل فوج کی بمباری میں 50سے زائد افراد مارے گئے تھے جن میں 17بچے تھے۔ اگرچہ اسرائیل کی فوج کا یہ طرز عمل گزشتہ کارروائیوں سے مختلف نہیں تھا مگر کارگزار وزیراعظم یاییر لیپڈ کی نگرانی والے انتظامیہ سے قطعاً یہ توقع نہیں کی جارہی تھی کہ وہ اسی سفاکی کا ثبوت دیںگے جس کا ثبوت اس کے پہلے کے فوجی حکام نے دیا تھا۔ یاییر شاید اپنے حریف بنجامن نیتن یاہو کی سفاکی کے آگے اپنے آپ کو بہتر یا بدتر سفاک ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسرائیل کے انتہاپسند طبقات میں ان کی مقبولیت بڑھ جائے۔بنجامن نیتن یاہو کی قیادت والا سیاسی اتحاد اور ان کی خود کی سیاسی جماعت لپیڈ پارٹی فلسطینیوں اور عربوں کے تئیں سفاکانہ پالیسیوں کے لئے بدنام ہیں۔ شاید یاییر لیپڈ کو اس سفاکی کا فائدہ ملے اور بنجامن نیتن یاہو کی پارٹی کی سیٹوں میں اور تخفیف ہوجائے۔ مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کے مسائل کم ہوتے ہیں یا انہیں ایک اور الیکشن کا انتظار کرنا ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS