نئی تعلیمی پالیسی سے کیوں خوف زدہ ہیں اساتذہ و طلبا؟

0

محمد حنیف خان

کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار وہاں کے نظام تعلیم و تربیت پر ہے۔یہ وہ شاہ کلید ہے جو ہر تالے اور دروازے کو کھول سکتی ہے۔نظام میں تغیر و تبدل اس کا جزء لاینفک ہے کیونکہ انجماد سے اگر پانی گدلا ہوسکتا ہے تو نظام میں زمانے کا ساتھ دینے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، اس لیے اس میں تغیر و تبدل کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔نئی تعلیمی پالیسی کا نفاذ عمل میں آچکا ہے جس کے بہت سے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔حالانکہ اجتماعی نظام کو نقصان سے پاک ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی طرح کی دشواری نئی نسل کی تعلیم وتربیت میں در پیش نہ ہو۔چونکہ تعلیم سے اساتذہ اور طلبا وابستہ ہوتے ہیں اس لیے ان سے زیادہ بہتر نہ تو کوئی اس کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں جان سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو فکر ہو سکتی ہے۔اساتذہ و طلبا کی ایک کثیر تعداد ہے جو موجودہ تعلیمی پالیسی سے مطمئن نہیں ہے جس میں طلبا کی متعدد اہم تنظیمیں شامل ہیں۔پہلے اس تعلیمی پالیسی کے سلسلے میں دبی دبی زبانوں میں گفتگو ہو رہی تھی مگر یہ اب باہر آگئی ہے کیونکہ ان اساتذہ اور طلبا کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے تعلیم کا ارتکاز ایک ایسے طبقے کی جانب ہوجائے گا جو پہلے سے ہی تعلیم یافتہ ہے اور وہ طبقہ جس کے لیے تعلیم سب سے زیادہ ضروری ہے جو کسی طرح سے تعلیم کے مین اسٹریم میں آیا تھا وہ دوبارہ باہر ہو جائے گا۔ان کی یہ فکر لازمی ہے کیونکہ خوشحال گھرانے یوں بھی تعلیم کے لیے بہت سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں،ڈگریاں تو ان کے پاس ضرور ہوتی ہیں لیکن بہت کم ایسے بچے ہیں جن کا تعلق خوشحال گھرانوں سے ہو اور انہوں نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہوں۔ میزائل مین اے پی جے عبد الکلام سے لے کر یوپی ایس سی میں منتخب ہونے والے افراد میں اکثر و بیشتر کا تعلق ایسے ہی گھرانوں سے ہوتا ہے جو کسمپرسی میں تعلیم کے زیور سے خود کو آراستہ کرتے ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق متعدد تبدیلیوں سے گزرتے ہوئے 2040تک ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ ہے۔جس میں ہر طرح اور ہر موضوع کی مکمل تعلیم دی جائے گی۔اسی طرح ملک کی تعلیم کو کتاب سے کمپیوٹر پر لانے کا منصوبہ ہے تاکہ بچے کتابوں کے بوجھ سے بچ سکیں،جس کے لیے چھٹی کلاس سے ہی کمپیوٹر کی تعلیم شروع کردی جائے گی۔ورچوئل لیب بھی تیار کیے جائیں گے۔ پہلے ہائی اسکول کے بعد دوسالہ انٹر ہوتا تھا جس سے ثانوی تعلیم کا مرحلہ مکمل ہوجاتا تھا مگر اب یہ 5+3+3+4میں تبدیل ہوگیاہے۔اس طرح گریجویشن اب چار برس میں مکمل ہوگا حالانکہ کسی بھی کورس سے نکلنے کا متبادل بھی رکھا گیا ہے تاکہ اگر کسی بچے نے غلطی سے اس سبجیکٹ میں داخلہ لے لیا ہے یا وہ اس کی سمجھ میںنہیں آ رہا ہے تو وہ اپنی راہ تبدیل کر سکتا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت سنسکرت اور ہندوستان کی قدیم زبانوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔سنسکرت کو آئی آئی ٹی کے شعبہ میں بھی فروغ دیا جائے گا،سنسکرت میں سبھی موضوعات کا مواد ترجمہ کیا جائے گا اور اگر کوئی چاہتا ہے تو اسی زبان میں اس کو تعلیم دی جائے گی۔اسی طرح موضوع طلبا کی سمجھ میں آنے کے لیے آرٹی فیشیل انٹلیجنس کا استعمال کیا جائے گا۔ہائر ایجوکیشن میں ایم فل کو ختم کردیا گیا ہے جس میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کے لیے طلبا کی مشق کرائی جاتی تھی تاکہ وہ اپنی ریسرچ کو معیاری اصول و ضوابط کے مطابق مکمل کرسکیں۔اہم بات یہ ہے کہ جس پالیسی میں کمپیوٹر کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور چھٹی کلاس سے لازم کیا گیا ہے،آرٹی فیشیل انٹلیجنس کے استعمال کی بات کی گئی ہے وہ بغیر کسی تیاری کے نافذ کردیا گیا ہے۔ سرکاری اسکول آج بھی بنیادی ضروریات سے عاری ہیں، ان میں چھٹی میں پڑھنے والے بچوں کو کمپیوٹر کیسے مہیا کرایا جائے گا۔یہ ایک بڑا سوال ہے؟کیونکہ کمپیوٹر انسٹرکٹروں/ کمپیوٹر اساتذہ کی تو بھرتی ہوئی نہیں ہے، ایسے میں کیا وہی روایتی اساتذہ ان بچوں کو تعلیم دیں گے جو خود بھی صحیح سے لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ہیں؟
یوجی سی،ہائر ایجوکیشن فنڈنگ ایجنسی اور نئی تعلیمی پالیسی کی متعدد شقوںکے خلاف اساتذہ اور طلبا میدان میں آگئے ہیں،ابھی حال ہی میں دہلی یونیورسٹی میں اساتذہ اور طلبا کی ایک جماعت نے فور ایئر انڈر گریجویٹ پروگرام،سینٹرل یونیورسٹی کامن انٹرنس ٹیسٹ اور اس پورے نظام کے خلاف بہت کھل کر گفتگو کی۔جس میں سب سے زیادہ مخالفت اس کے معاشی پہلو کی کی گئی۔کیونکہ 1968کے بعد سے جب بھی تعلیم پر اخراجات کے سلسلے میں غور و خوض کیا گیا تو ہمیشہ یہ بات کی گئی کہ گھریلو پیداوار(جی ڈی پی ) کا 6فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے کیونکہ جب حکومت اتنی خطیر رقم خرچ کرے گی تبھی زراعت پر مبنی ملک ہندوستان کی نئی نسل تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکتی ہے کیونکہ ناخواندگی آج بھی ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔اس کے باوجود تعلیم پر صرف3.1فیصد ہی خرچ ہو رہا ہے،جو تعلیمی اہداف کے برخلاف ہے۔یونیورسٹیاں اب قرض لے رہی ہیں،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی نے ہائر ایجوکیشن فنڈنگ ایجنسی سے ہزاروں کروڑ روپے کا قرض لیا ہے تاکہ وہ بنیادی ڈھانچہ تیار کرسکیں۔ ایک آزاد ملک میں تعلیمی اداروں کا قرض لینا یا سرکار کا انہیں قرض دینا ہمارے نظام کی کس خامی کو بیان کرتا ہے؟اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلا سوال یہی ہے کہ حکومت نے اس طرح کی ایجنسی بنائی ہی کیوں؟دہلی یونیورسٹی میں نئی پالیسی کے خلاف ہونے والے پروگرام میں امبیڈ کر یونیورسٹی کے پروفیسر گوپال پردھان نے بڑی اہم بات کہی کہ ’’نچلے طبقے کے لوگوں میں اعلیٰ تعلیم کی خواہش پیدا ہوئی ہے لیکن حکومت اپنی نئی پالیسی سے ان کی خواہشات اور عزائم کو ختم کردینا چاہتی ہے کیونکہ وہ سیٹوں میں تخفیف کر رہی ہے،ان کا کہنا ہے کہ اس ایجنسی کو بنانے کا مقصد یوجی سی کا خاتمہ ہے کیونکہ جب نچلے طبقے کے بچے ہائر ایجوکیشن میں آتے تھے تو یوجی سی سے ملنے والے وظائف ان کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کرتے تھے جس سے چار پانچ سال کی تعلیم مکمل ہوجاتی تھی لیکن اس کو ختم کر کے اب تعلیمی اداروں کو ہائر ایجوکیشن فنڈنگ ایجنسی سے قرض کی صورت میں فنڈنگ کی جائے گی،جس کی ادائیگی یونیورسٹیاں طلبا کی تعلیمی و دیگر فیسوں میں اضافہ کرکے کریں گی۔اس طرح طلبا کو نوکری پانے سے پہلے ہی قرض دار بنادیا جائے گا۔ اس طرح ہائر ایجوکیشن برباد ہوجائے گا جس سے ملک کا مستقبل بھی برباد ہوگا۔سیٹوں میں تخفیف پر بھی باتیں ہوئیں کہ جب سیٹیں زیادہ ہوتی ہیں تو امتحان کا مقابلہ آسان ہوجاتا ہے مگر سیٹیں کم کرکے اس کو مشکل بنادیا گیا ہے،اس لیے اس میں اضافے کا قدم اٹھایا جانا ضروری تھا مگر اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
اسی طرح یوجی سی نے اسی نئی پالیسی کے نام پر لٹرل انٹری کا منصوبہ بنا لیا ہے جس کے تحت وہ کسی بھی فرد کو اپنے موضوع میں مہارت کے نام پر کسی بھی یونیورسٹی کے کسی بھی شعبہ میں بغیر تعلیمی اہلیت کے پروفیسر مقرر کرسکتی ہے۔ تدریس کے شعبہ میں یوں بھی سیٹوں کی کمی ہے۔لاکھوں طلبا ہر سال ریسرچ مکمل کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد چھوٹی چھوٹی نوکریوں کیلئے بھٹک رہے ہیں ایسے میں لٹرل انٹری کے نام پر نااہل لوگوں کی تقرری کیسے برداشت کی جا سکتی ہے؟
ہندوستان سیکولر ہے،جس کی بنیاد ایک سیکولر آئین پر ہے، اس کے باوجود اسکولی تعلیم کی سطح پر صرف ایک مذہب کی کتاب نصاب میں شامل کرنا کس ذہنیت کو بیان کرتا ہے؟گیتا یقینا اخلاقی اقدار کی کتاب ہے اسے پڑھنا اور پڑھایا جانا چاہیے لیکن کیا دوسرے مذاہب کی کتابیں بھی حکومت اسکولی نصاب میں شامل کرے گی؟زبان اور تہذیب و ثقافت کے نام پر صرف ایک مذہب کی تعلیم تونہیں دی جا سکتی ہے ؟لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ملک کو ایک خاص پالیسی کے مطابق ایک خاص سمت میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جو آئین،سیکولرزم اور ملک کی روح کے منافی ہے۔تبدیلی ناگزیر ہے مگر ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے روحانی اور مادی دونوں طرح کی ترقی ہو۔ملک کو ایسی پالیسی نہیں چاہیے جو غریبوں کو تعلیم سے محروم کردے،بچوںمیں خاص نہج پر تیارتاریخ سے منافرت پیدا کرے،جو نئی نسل کی سوچ اور فکر کو سیکولر بنانے کے بجائے یک رخا اور متشدد بنادے۔صرف کاغذات پر منصوبوں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلتی اس کیلئے عملی سطح پر اقدام ہوتا ہے۔اس تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے قبل حکومت کو اپنے ماتحت چلنے والے اسکولوں میں کمپیوٹر اور اساتذہ کے ساتھ ہی دیگر بنیادی ڈھانچوں کا انتظام کرنا چاہیے تھا جو اس نے نہیں کیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS