عبدالماجد نظامی
ہندوستان کی قدیم ترین سیاسی پارٹی کانگریس جس نے انگریزی سامراج سے ملک کو آزاد کرانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا تھا، آج اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں اس پارٹی نے مسلسل صرف دو لوک سبھا انتخابات ہی نہیں ہارے بلکہ 49اسمبلی انتخابات میں سے39میں اس کو شکست فاش ملی۔ کانگریس کے بے شمار لیڈران نے پارٹی کو خیر باد کہہ کر نئی منزل کی تلاش شروع کردی ہے۔ حال ہی میں غلام نبی آزاد جیسے قد آور نیتا نے بھی اپنا رشتہ کانگریس پارٹی سے توڑ لیا اور اب اپنی الگ سیاسی پارٹی بنانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ناکامی کے بعد راہل گاندھی نے شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور سونیا گاندھی کو ایک سال کے لیے عبوری صدر کے طور پر منتخب کیا گیا تھا تاکہ اگلے صدر کے انتخاب تک وہ پارٹی کو قیادت فراہم کر سکیں۔ یہ مدت دراز ہوتی گئی اور صدر کے انتخاب کا کام ٹلتا رہا۔ اب17اکتوبر کو کانگریس کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں آنا طے پایا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ داخلی انتشار کا شکار اس پارٹی کو کوئی ایسا قائد نصیب ہوتا ہے یا نہیں جو اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرسکے اور منتشر شیرازہ کو یکجا کرکے ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ملک کے سامنے پیش کر سکے تاکہ ملک گیر سطح پر موثر اپوزیشن کی ذمہ داریاں ادا کرکے ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم بنانے کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچ پائے۔ البتہ اس دوران کانگریس پارٹی نے اپنے سابق صدر راہل گاندھی کی قیادت میں ایک ملک گیر یاترا کا آغاز کر دیا ہے۔ اس یاترا کا مقصد بیان کرتے ہوئے راہل گاندھی نے تمل ناڈو میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوستان کے عوام کو اکٹھا کرنا اور انہیں اتحاد کی ڈور میں پرونا بہت اہم ہے۔ انہیں متحد کرنا اس لیے بہت ضروری ہے کیونکہ ہندوستان کو متحد رکھنے کا کام تبھی پورا ہو سکے گا جب یہاں کے عوام میں اتحاد ہوگا۔ یہی بھارت جوڑو یاترا کا مقصد ہے اور اس کو اس ڈھنگ سے تیار کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی باتیں سنی جائیں اور انہیں سمجھنے کی کوشش ہو۔‘‘ راہل گاندھی کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس ملک میں جوڑنے کے بجائے توڑنے کی سیاست گزشتہ برسوں سے عروج پر ہے۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست نے اس کی روح کو مجروح کر دیا ہے۔ دلوں اور ملک کو توڑنے والی اس سیاست کے لیے وہ سیدھے طور پر آر ایس ایس اور بی جے پی کی آئیڈیالوجی کو ذمہ دار مانتے ہیں اور اسی لیے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس کا مقابلہ محبت و رواداری کی سیاست سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کی وجہ سے وہ اپنے والد کو کھو چکے ہیں اور اب اپنا ملک اس نفرت کی وجہ سے نہیں کھونا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول محبت کو نفرت پر فتح ملے گی۔ امید و رجاء کے کلچر کو خوف و مایوسی پر غلبہ نصیب ہوگا اور ہم ہندوستانی متحد ہوکر نفرت کے اس کلچر کو ختم کریں گے۔اُن کی نظر میں ملک توڑنے کی ہر سازش کا جواب ہے بھارت جوڑو یاترا۔
کنیا کماری سے شروع ہوکر کشمیر تک پہنچنے والا محبت کا یہ قافلہ تین ہزار پانچ سو ستر کلو میٹر کا سفر طے کرے گا۔ یہ قافلہ جس میں راہل گاندھی کے ساتھ کانگریس کے دیگر 118 سینئر لیڈران بھی شامل ہیں، ملک کی 12 ریاستوں اور دو یونین ٹیریٹریز سے گزرے گا۔ یہ قافلہ روزانہ اوسطاً 22 سے 25 کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرے گا۔ کسی ہوٹل میں قیام کے بجائے کنٹینر اور خیموں میں ٹھہرے گا اور عوام سے ملاقات کرکے انہیں مودی سرکار اور بی جے پی کی سماج کو تقسیم کرنے والی سیاست اور ایجنڈہ سے آگاہ کرے گا۔ ساتھ ہی 2024 کے عام انتخاب سے قبل ملک کے لوگوں کو بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل اور ان کے اسباب سے بھی واقف کرانے کا کام کرے گا۔ سماج میں بڑھتی نابرابری، امیر اور غریب کے درمیان کا فرق اور غریبوں، مزدوروں کی ابتر حالت کے لیے ذمہ دار اقتصادی پالیسیوں کو بھی اجاگر کیا جائے گا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک کے عوام میں جو بے چینی ہے، اس کے پیش نظر اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ انہیں حالات کی سنگینی سے مزید واقف کرایا جائے اور ان کے غصہ کو صحیح جہت میں موڑ کر نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی اور اس کی فکری رہنما تنظیم آر ایس ایس کے نفرت آمیز نظریہ سے ملک کو آزاد کرایا جا سکے۔ اس کے برعکس بی جے پی کا نعرہ یہ رہا ہے کہ ہندوستان کو کانگریس سے آزاد کرایا جائے اور اقرباء پروری پر قائم سیاست کا خاتمہ ہو۔ اس نعرہ میں مزید توسیع کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے یہ اعلان بھی بہار میں کر دیا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کا ختم ہوجانا اور صرف بی جے پی کا باقی رہنا طے ہے۔ اس بیان کا منفی نتیجہ فوری طور پر بی جے پی کو بہار میں جھیلنا پڑا کہ اس کی پرانی حلیف پارٹی جے ڈی یو نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور ریاست بہار میں سرکار بدل گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے عروج میں جمہوریت کے زوال کا راز پنہاں ہے اور کثیر جماعتی سیاسی منظرنامہ کے خاتمہ کا اشارہ اس میں موجود ہے جو ظاہر ہے کہ جمہوری نظام کے لیے نہایت نقصان دہ اور مطلق العنانی کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن پارٹیاں اپنے بے جا غرور کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے اعلیٰ ترین مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایک متحد پلیٹ فارم قائم کرنے میں کامیاب ہوں گی؟ ملک کے عوام کو جوڑنے کے لیے اٹھایا گیا قدم ہر حال میں قابل ستائش ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری ہے کہ سیکولر سیاسی پارٹیاں اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرکے مشترک مقاصد کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوں۔ گرچہ نتیش کمار اور ممتا بنرجی نے بھی اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن ماضی میں خود ان کی پارٹیوں نے جس طرح سے ایک دوسرے کی دعوت تک کو قبول کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنے غرور کا خیال زیادہ رکھتے ہیں۔ یہ مناسب وقت ہے جب وہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل یہ ثابت کریں کہ پورے ملک میں پیدل یاترا کرکے صرف عوام کو ہی جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دستوری قدروں کی حفاظت کے لیے خود سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد قائم کرنا اور بی جے پی کی ملک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے والی پالیسیوں کے خلاف لڑنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تبھی اس ملک کے اتحاد کو بچا پانا ممکن ہوسکے گا۔ راہل گاندھی کی اس بھارت جوڑو تحریک کے ناقدین کی بھی کمی نہیں ہے لیکن وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسی ہر کوشش کو سراہا جائے اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو بھی عوامی دباؤ کے ذریعہ مجبور کیا جائے کہ وہ ہندوستانیوں کو بانٹنے والے نظریہ کا سیاسی و سماجی اور اقتصادی ہر پہلو سے مقابلہ کریں۔ ملک میں نفرت اور انتشار کی جو فضاء قائم ہوگئی ہے وہ کتنی خطرناک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دانشوروں، ادیبوں، ججوں اور بالی ووڈ اداکاروں کے بعد اب ملک کے معروف صنعت کار مثلاً بجاج، کرن مجمدار شاہ اور نادر گودریج نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اگر ملک متحد نہیں رہا تو اس کی ترقی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]