مدارس کا سروے شناخت مٹانے کی سازش تو نہیں

0

ایم اے کنولؔ جعفری

گزشتہ 8 برسوں سے نہ صرف مرکز میں آر ایس ایس کے نظریات کی نمائندگی کرنے والی بی جے پی کی حکومت ہے،بلکہ آسام اور اترپردیش سمیت کئی دیگر صوبوں میں بھی یہی جماعت برسراقتدار ہے ۔مرکز کی طرح ہر ریاستی حکومت آئین کی دہائی دیتی نہیں تھکتی،لیکن یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ملک میں زعفرانی سیاست اپنی مخصوص زبان بول رہی ہے ۔کبھی طلاق،کبھی حجاب،کبھی نماز،کبھی اذان،کبھی مسجد،کبھی لاؤڈ اسپیکر،کبھی کورونا،کبھی تاج محل،کبھی قطب مینار،کبھی مدارس، کبھی مدارس کے نصاب اور کبھی آبادی پر اعتراض عام بات ہو گئی ہے۔ آسام اور اُتر پردیش میں خاص مذہب کو نشانہ بناتے ہوئے فیصلے لینے کو جمہوریت کے لیے نیک فال نہیں کہا جا سکتا۔ان میں اقلیت ، ان کی عبادت گاہیں اور تعلیمی ادارے نشانے پر ہیں۔کبھی مدرسوں کو دہشت گردی کے اڈے کہا جاتا ہے،تو کبھی وہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دہشت گردبتاکر مطعون کیا جاتا ہے۔حال ہی میں اُتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے صوبے کے غیر تسلیم شدہ مدرسوں کے سروے کا حکم جاری کیا ہے۔اسے لے کر اہل مدارس فکر مند ہیں۔ یو پی مدرسہ تعلیمی بورڈ سے رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 16,513ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں مدارس و مکاتب تعلیمی سرگرمیاںانجام دے رہے ہیں۔ ضلع کے اے ڈی ایم کی نگرانی میں ضلع بیسک تعلیم افسر، ضلع اقلیتی افسر اور متعلقہ حلقہ کے ایس ڈی ایم پر مشتمل کمیٹی کے ذریعہ10اکتوبر تک سروے کا کام پورا کرنے اور ڈی ایم کے ذریعہ 25اکتوبر تک رپورٹ حکومت کو سونپنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دراصل گزشتہ دنوں لکھنؤ کے گوسائی گنج حلقہ کے ایک مدرسے میں ٹیچر کے ذریعہ بچے کو لوہے کی زنجیر سے باندھ کر زودوکوب کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ قومی اطفال کمیشن نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے15جون کو مدرسہ تعلیمی بورڈ کی میٹنگ میں مدرسہ بورڈ کے علاوہ دیگرسبھی مدارس کا سروے کرانے کی تجویز پیش کی تھی۔تجویز کو اتفاق رائے سے منظور کر حکومت کو بھیجا گیا تھا۔حکومت نے 30اگست کو غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ سروے کی زد میں دارالعلوم دیوبند اورندوۃالعلماء جیسے بڑے اداروں سے ملحق مدرسے ، این جی او کے تحت چل رہے مدارس اور مساجد میں دینی تعلیم دینے والے مکاتب بھی آئیں گے۔ سروے میں جو بارہ نکاتی معلومات چاہئیں،ان میں مدرسہ کا نام، چلانے والی تنظیم، سن قیام، محل وقوع کی تفصیل،سہولتیں، بچوں کی تعداد، اساتذہ کا شمار، نافذنصاب اور آمدنی کے ذرائع وغیرہ شامل ہیں ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بہانے بنا کر مدارس کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے گروکل،مٹھوں،دھرم شالاؤں اور برادر وطن کے دیگر مذہبی اداروں کو سروے سے الگ رکھنے پرسوال اُٹھائے ہیں۔ جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی نے یو پی و آسام میں مدارس پر شکنجہ کسنے ، معمولی خلاف ورزیوں کو بہانہ بناکر مدارس بندکرنے، عمارت منہدم کرنے،مدارس و مساجد میں کام کرنے والوں کو بلا دلیل دہشت گرد بتانے اوربغیر ثبوت کارروائی کرنے کو آئین میں دئے حقوق کی صریح خلاف ورزی بتاتے ہوئے تعصب و نفرت کے منفی نظریہ کے بجائے آئین کی رُوح پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کیا۔جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں مدارس کی بقا و تحفظ کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا۔ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ امن و امان کے ساتھ ہمارے دینی اداروں کو چلنے دیا جائے،لیکن فرقہ پرست ہمارے وجود کو ختم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں،جسے ہر گز نہیںہونے دیں گے ۔ مدرسوں کا وجود ملک کے لیے ہے۔اس کا 150سالہ کردار گواہ ہے کہ یہاں سے ہمیشہ ملک کی تعمیر کا کام ہوا ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسدالدین اویسی نے مدارس کے سروے پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سروے کو چھوٹا این آرسی بتایا۔ کہا کہ صوبے کے مدارس آرٹیکل 30 میں ملے حقوق کے تحت چل رہے ہیں۔ ان میں سرکار دخل انداز نہیں ہوسکتی ۔ انھوں نے آر ایس ایس کے اسکولوں کا بھی سروے کرانے کا مطالبہ کیا۔ اسلامک سینٹر آف انڈیا کے چیئرمین اور امام عیدگاہ لکھنؤ مولانا رشید فرنگی محلی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ملک میں تمام اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا آئینی حق حاصل ہے۔ان میں 90فیصد طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ مدرسے ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔جنگ آزادی میں مدارس کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی ناکام ہونے پر علمائے ہند (علمائے دیوبند) نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی،تاکہ ملک آزاد کرانے کے لیے طلبہ تیار کئے جاسکیں۔علمائے دیوبند نے ہی انگریزوں کی غلامی حرام کا صریح فتویٰ دے کر مسلمانوں پر ملک آزاد کرانے کو فرض قرار دیا تھا۔مدارس کے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ نے آزادی کے لیے جانیں قربان کیں۔ملک میں مدارس جیسی روشن تاریخ اور کسی کی نہیں ہے۔راجہ رام موہن رائے،ڈاکٹر راجندر پرساد ، منشی پریم چند، ڈاکٹر شنکر دیال شرما،مولانا ابوالکلام آزاد، فخرالدین علی احمد اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جیسی نامور شخصیات کی بنیادی تعلیم مدرسوں میں ہوئی۔13 جولائی 1950 کو دارالعلوم دیوبند آمد پر ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا ،اس سے اندھ بھکتوں کی اندرونی آنکھیں ضرور کھل جانی چاہئیں۔وہ لکھتے ہیں،’’آپ کے دارالعلوم دیوبندنے صرف اس ملک کے بسنے والوں ہی کی خدمت نہیں کی،بلکہ آپ نے اپنی خدمات سے اتنی شہرت حاصل کرلی ہے کہ غیر ممالک کے طلبہ بھی آپ کے یہاں آتے ہیںاور یہاں سے تعلیم پاکر جو کچھ انھوں نے یہاں سیکھاہے اپنے ممالک میں اس کی اشاعت کرتے ہیں۔یہ اس ملک کے سب ہی باشندوںکے لیے قابل فخر ہے۔دارالعلوم دیوبند کے بزرگ علم کو علم کے لیے پڑھتے اور پڑھاتے رہے ہیں۔ایسے لوگ پہلے بھی ہوئے ہیں،مگرکم۔ان لوگوں کی عزت بادشاہوں سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔آج دارالعلوم کے بزرگ اسی طرز پر چل رہے ہیںاور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف دارالعلوم یا مسلمانوں ہی کی خدمت نہیں ، بلکہ پورے ملک اور دنیا کی خدمت ہے۔آج دنیامیںمادیت کے فروغ سے بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور دلوں کا اطمینان اور چین مفقود ہے۔اس کا صحیح علاج روحانیت ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ سکون و اطمینان کا وہ سامان یہاں کے بزرگ دنیا کے لیے مہیا فرما رہے ہیں۔اگر خدا کو اس دنیا کو رکھنا منظور ہے تو دنیا کوبالآخر اسی لائن پر آنا ہے۔میں دارالعلوم میں آکر بہت زیادہ مسرور ہوا اور یہاں سے کچھ لے کر جا رہا ہوں۔‘‘
5؍ ستمبر کو دارالعلوم دیوبند نے اس مدعے پر اپنے ردعمل کا اظہارکیا۔ مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی کے مطابق مجلس تعلیمی کی اہم میٹنگ میں 24ستمبر کو دیوبند میں ہونے والے اجلاس میں صوبے کے 250سے زائد مدرسوں کے ذمہ داران کو مدعو کرنے کو منظوری دی گئی،تاکہ سرکار کے حکم نامے کی بابت حتمی فیصلہ لیا جا سکے۔آل انڈیا امام کونسل کے قومی صدر مولانا احمد بیگ ندوی نے مخصوص نظریے کی حکومتوں کا واضح ایجنڈا مسلم شناخت پر ڈاکہ ڈالنا بتاتے ہوئے کہا کہ مدارس یا مساجد کی زمین یا نقشے میں خامی ملنے پر کارروائی کی جاتی ہے،جبکہ دوسری کمیونٹی کے اداروںو عبادت گاہوں میں کئی گنا زیادہ خامیوںپر نہ ایکشن لیا جاتا ہے اور نہ بلڈوزر چلایا جاتا ہے۔بعض اسکولوں میں مبینہ طور پرہتھیاروں کی ٹریننگ کی بھی خبریں آتی ہیں ، لیکن حکومت خاموش رہتی ہے۔مجلس علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولاناسید کلب جواد نقوی نے مدرسوں کے ساتھ سبھی تعلیمی اداروں کے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید کا کہناہے کہ یہ جانچ نہیں صرف سروے ہے اور کسی کو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے علم ہو سکے گا کہ کل کتنی طرح کے مدرسے چل رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ بچے کو زنجیر میں باندھ کر پٹائی کا حیلہ بناکر مدارس کا سروے کرایا جا رہا ہے،جبکہ پرائمری اسکولوں میں ٹیچر کے ذریعہ دلت بچوں کی پٹائی سے موت پر اس طرح کی کارروائی نہیں کی گئی۔قابل غور یہ بھی ہے کہ اگر سروے کا مقصد صرف معلومات ہی ہوتی،تو ضلع اور تحصیل سطح کی تین رکنی ٹیم بنانے کی کیا ضرورت تھی؟اسے بلاک سطح کے بی ای او ، بی آر سی یا نیائے پنچایت کے این پی آر سی کر سکتے تھے،لیکن بات کچھ اور ہی ہے۔
آسام کی بی جے پی حکومت نے 29اگست کو بارپیٹا میں’ شیخ الہند محمودالحسن جامع الہدیٰ‘ اور 31اگست کو ضلع بونگائی کے کبیتاری گاؤں سمیت تین مدارس منہدم کئے۔اس بابت متضاد موقف سامنے آئے۔وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کے تعلق سے جن 40افراد کو گرفتار کیا گیا، اُن کی وابستگی ان مدرسوں سے ہونے کی بنا پر بلڈوزر چلایا گیا،جب کہ حکام کا میڈیا سے کہنا تھا کہ مدارس ضابطے کی خلاف ورزی کر بنانے کے سبب گرائے گئے۔متضاد بیانات سے واضح ہو تا ہے کہ معاملہ دہشت گردوں یا غیر قانونی تعمیرات کا نہیں ہے ،بلکہ مذہب خاص کے ساتھ تعصب اور دشمنی کاہے۔ پچھلے دنوں نہتے مسلمانوں پر کی گئی پولیس فائرنگ میں ہلاک ہوئے لوگوں کی لاشوں پر جشن منانا اس کا ثبوت ہے ۔ آسام کی زمین پرگنجائش سے زیادہ بوجھ بتانے والے وزیراعلیٰ اسے کم کرنے کو ضروری بتا رہے ہیں ۔ بربریت کا کھلا مظاہرہ کرنے والی حکومت اس سے قبل تمام سرکاری مدرسوں کو بند کرا چکی ہے۔اتر پردیش کے حالات بھی اسی طرح کے ہیں۔ 16جولائی کو امروہہ ضلع کی حسن پور تحصیل کے جیبرا گاؤں کے مدرسے کو غیر مسلموں کی لاؤڈ اسپیکر میں نماز پڑھنے کی شکایت پر یہ کہہ کر مسمار کر دیا کہ اسے سرکاری زمین پر غیر قانونی طریقے سے بنایا گیاہے۔
غورطلب ہے کہ2019میں یو پی مدرسہ بورڈ نے مدارس میںتعلیمی نظام کی جدیدکاری کے نام پر نصاب میں تبدیلی کر مذہبی تعلیم کے علاوہ انگریزی، ہندی، ریاضی،سائنس،سوشل سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انگریزی،ہندی اور ریاضی کی تعلیم کو لازمی اور سائنس ،سوشل سائنس و کمپیوٹر کو اختیاری مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا گیا۔حالانکہ یہ معیار بلند کرنے کے نام پر کیا گیا ہے ،لیکن اس سے مدارس کے حقوق تلف ہوں گے اور دینی تعلیم حاشیہ پر چلی جائے گی۔ ملک کا آئین ہر شہری کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے اور تعلیم کا حق دیتا ہے۔مدارس بھی اس مراعات سے مستثنیٰ نہیں،لیکن مدارس کوشک کی نگاہ سے دیکھنا افسوس ناک ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی زعفرانی تنظیموں کا رویہ اسلام مخالف اور جارحانہ رہا،لیکن بی جے پی کے دور اقتدار میں اسلام اورمدارس نشانہ پر ہیں۔ شدید مخالفت کے باوجود کئی خامیوں والے تین طلاق کے بِل کو منظور کراکر قانونی شکل دینا اس کا بین ثبوت ہے کہ اقتدار کے اندھے گھوڑے پر سوار حکومت خاص ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں لگی ہے۔ ووٹ بینک اور پولرائزیشن کے مد نظر قومی یکجہتی کے جمہوری تانے بانے کو تارتار کر منافرت کی فضائیں قائم کی جا رہی ہیں ۔ بھگوا تنظیمیں ہر وہ کام کرنے کی ضدپراڑی ہیں،جس سے دونوں فرقوں کے درمیان نفرت اوردُوری پیداہو۔
تعلیم کی منصوبہ بندی میں کوئی بُرائی نہیں ہے،لیکن نیت کا صاف ہونا ضروری ہے ۔اگر حکومت کو اقلیتی طبقات اور بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا خیال ہے اور وہ مدارس کی ترقی اور مسلمانوں کی بہبود کے لیے سنجیدہ ہے ،تواُسے مدرسوں میں پڑھنے والے صرف چار فیصدی بچوں کے لیے متفکر ہونے کی بجائے عصری تعلیم حاصل کرنے والے 96فیصد مسلم بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے ایماندارنہ کوشش کرنی چاہئے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS