سلمان خورشید کی کتاب کے تناظر میں سیکولرزم پر بحث

0

نیلم مہاجن

ہندوستان کے آئین میں سیکولرزم ایک اہم ستون ہے۔ پھر بھی گاہے بگاہے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی ہوتی رہتی ہے۔ اس کا سبب ہے شدت پسندی اور عدم رواداری۔ ہندوستان پوری دنیا میں سیکولرزم کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس موضوع پر سلمان خورشید کی کتاب ’سن رائز اوور ایودھیا‘ کی خاص اہمیت ہے۔ سلمان نے سبھی کو اپنے مذاہب پر رواداری کے ساتھ عمل کرنے کی اپیل کی ہے۔ میں سینٹ اسٹیفن کالج کے دنوں سے بیریسٹر سلمان خورشید سے واقف ہوں۔ سلمان مجھ سے کچھ سال بڑے تھے لیکن وہ اکثر کیفے آتے تھے۔ وہ ڈاکٹر ششی تھرور، پرویز دیوان وغیرہ کے ہم عصر ہیں۔ سلمان کے ساتھ اپنی وابستگی کی تین دہائیوں میں مجھے ہمیشہ ان پر فخر محسوس ہوا ہے۔ سلمان خورشید ہندوستان کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکرحسین کے پوتے اور خورشید عالم خان سابق مرکزی وزیر کے بیٹے ہیں۔ سلمان خورشید ایک اچھے مقرر اور پختہ قلم کار ہیں۔ وہ ہندوستان کے وزیرخارجہ رہ چکے ہیں۔ سلمان خورشید فرخ آباد لوک سبھا سیٹ کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ وہ جون 1991 میں مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ بنے۔ سلمان خورشید نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات 1981 میں وزیراعظم کے دفتر میں اوایس ڈی کے طورپر وزیراعظم اندراگاندھی کے ساتھ کی تھی۔ وہ دو بار اترپردیش کانگریس کمیٹی کے صدر رہ چکے ہیں۔ وہ دہلی پبلک اسکول سوسائٹی کے صدر اور ڈاکٹر ذاکرحسین اسٹڈی سرکل اور مدرٹریسا میموریل ٹرسٹ مدر ٹریسا فائونڈیشن کے سرپرست بھی ہیں۔ ’سن رائز اوور ایودھیا‘ سلمان خورشید کے ذریعہ لکھی گئی کتاب کو میں نے گہرائی سے پڑھا ہے۔ ’سن رائز اوور ایودھیا‘ دی نیشن ہڈ ان آور ٹائم، پینگوین رینڈم ہائوس کے ذریعہ شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے آر ایس ایس اور ہندوتو کی سوچ پر نکتہ چینی کی ہے۔ یہ کتاب مجھے سروانن سندرمورتی (آئی آئی ٹی کے ماہرین تعلیم) کے ذریعہ پیش کی گئی ہے۔ اس پر ایک پیغام تھا ’پیاری نیلم، آپ تبسم کے لئے میلوںکی اونچائی تک جانے کے لئے آپ کے دوست مسٹر سلمان خورشید کے لئے …خوشیاں پھیلانے کے لئے۔‘‘ کتاب کے 113ویں صفحہ میں ’دی سیفرن اسکائی‘ میں ہندوتو کا موازنہ آئی ایس آئی ایس اور بوکوحرام سے کیا ہے۔ جو بھی جواز پیش کش کیا گیا ہو، ایودھیا کی کہانی ایک مذہب کے دوران دوسرے مذہب کے طورطریقوں کو روندنے کے بارے میں تھی۔ لیکن مذہب کی تشریح کے معاملہ میں مسابقت کے دور سے گزر رہی تھی۔ سنتوںاور سنتوں کے لئے جانے والے سناتن دھرم اور شاستریہ ہندو دھرم کو ہندوتو کے مضبوط تحفظ سے الگ رکھا گیا تھا۔ حال کے سالوں میں آئی ایس آئی ایس اور بوکوحرام جیسے گروہ کی جہادی اسلام کی طرح ایک سیاسی سرپرستی ہے جس کی سیاسی آئیڈیالوجی بالکل واضح تھی اس لئے انتخابی مہم میں بھی اس سب کو ضروری طورپر جگہ ملی ہے۔ ایک بار ایسا ہی الیکشن سپریم کورٹ تک گیا تھا جہاں جسٹس کے ایس ورما نے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کے استعمال کے تناظر میں ہندوتو لفظ پرسماعت کی تھی۔ اسے شک کا فائدہ دیا گیا، سلمان خورشید لکھتے ہیں ’’آئی ایس آئی ایس کیا ہے؟(اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا) جسے آئی ایس آئی ایل (اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیوینٹ)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ایک سنی جہادی گروہ ہے جس کی خاصیت اس کی شدت پسندانہ فکر ہے جو خود کو ’خلافت‘ کہتے ہیں اور سبھی مسلمانوں پر مذہبی اختیار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ القاعدہ سے متاثر تھا لیکن بعد میں کھلے عام اس سے خارج کردیا گیا تھا۔ بوکو حرام کیا ہے؟ بوکوحرام باقاعدہ طورپر جماعت اہل کی شکل میں سنت -دعوہ-والجہاد کی شکل میں جانا جاتا ہے۔ یہ نائجیریا میں قائم ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو چاڈ، نائجیر اور شمالی کیمرون میں بھی سرگرم ہے۔ 2016 میں یہ گروہ تقسیم ہوگیا جس کے نتیجے میں اسلامک اسٹیٹ کے مغربی افریقہ کے علاقے کے روپ میں جانا جانے والا ایک مسلح گروہ ہے جس کا قیام 2002 میں محمد یوسف کے ذریعہ ہوا۔ میدوگوری، نائجیریا میں کیا گیا تھا۔
سلمان ایک دانشور سیاسی لیڈر ہیں جنہوں نے سینٹ اسٹیفن کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ سلمان خورشید کی کتاب کے اہم پہلو ہیں: ایٹ ہوم ان انڈیا، ٹریپل طلاق، دی اِن وزبل مسلم۔ وہ رونالڈ ڈوارکن کے قانون اور سیاسی امور میں شریک مدیر ہیں۔ انہوں نے ایک ناٹک ’سنس آف بابر‘ لکھا ہے۔
میری رائے: سلمان خورشید کی پوری طرح سے ایک سیکولر لیڈر کی طرح عزت کی جاتی ہے۔ ان کا پسندیدہ قول ہے : نہ ہی تم میرے معبود کی عبادت کروگے کیونکہ تمہارے لئے تمہارا مذہب ہے اور میرے لئے میرا مذہب ہے۔‘ (سورہ الکافرون:قرآن) کیا میں کہہ سکتی ہوں کہ را م مندر کے دروازے وزیراعظم راجیوگاندھی کے وزیرداخلہ ارون نہرو کے ذریعہ کھولے گئے تھے۔ بابری مسجد کا انہدام کانگریس کے دوراقتدار میں ہوا جبکہ پی وی نرسمہارائو ہندوستان کے وزیراعظم تھے۔ نرسمہارائو خود ہندوتو کے تئیں نرم تھے اور آر ایس ایس یا وشوہندوپریشد کے حامی تھے۔ اس وقت کی مقتدر کانگریس پارٹی خاموش تماشائی کیوں تھی۔ سلمان خورشید نے خود اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں رام جنم بھومی کا مقدمہ آیا لیکن اب تورام مندر زیرتعمیر ہے۔ اگرچہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ورکروں نے سلمان خورشید کے نینی تال کے گھر میں آگ لگا دی۔ سلمان خورشید کو پرینکا گاندھی واڈرا اور راہل گاندھی کے ذریعہ ہندوتو کی رضامندی کی وضاحت کرنی چاہئے تھی جو خود ایودھیا میں رام مندر کا دورہ کر رہے ہیں۔ اروند کجریوال نے سبھی دہلی والوں کو ایودھیا میں مفت درشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ سلمان خورشید دہلی اور آکسفورڈ میں اپنے دوران طالب علمی سے ہی ڈرامہ نویسی اور اداکاری میں شامل رہے ہیں۔ وہ ’سنس آف بابر‘ ڈرامے کے مصنف ہیں۔ جسے روپا اینڈ کمپنی کے ذریعہ چھاپا گیا ہے۔ جس میں ٹام آلٹر، دہلی کے لال قلعہ میں اہم رول میں ہیں۔ سلمان خورشید 1990 میں شائع ہونے والی ’دی کنٹمپریری کنزریٹیو:سلکیٹیڈ رائٹنگس آف دھیرین بھگت‘ کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ اترپردیش کے علی گڑھ میں پیدا ہونے والے سلمان خورشید پٹھان آفریدی ہیں۔ سلمان خورشید نے سینٹ زیویئر ہائی اسکول پٹنہ، دہلی پبلک اسکول متھراروڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوںنے بی اے انگلش آنرس سینٹ اسٹیفن کالج دہلی اور بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹ ایڈمنڈ ہال میں ایم اے بیچلر آف سول لا کیا ہے۔ انہوںنے آکسفورڈ کی ٹرینٹی کالج میں قانون کے لیکچرر کے طورپر پڑھایا۔ ’سن رائز اوور ایودھیا‘ سلمان خورشید سیکولرزم پر بحث کو مکمل طورپر روکنے کے حامی ہیں تاکہ سب لوگ ہندوستان میں متحد ہوکر رہ سکیں۔
(مضمون نگار سینئرصحافی ہیں اور دوردرشن سے وابستہ رہی ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS