بے وقت مانسون سے زرعی چیلنجز میں اضافہ

0

ڈاکٹر جینتی لال بھنڈاری

اگرچہ اس مرتبہ پورے ملک میں مانسون کی بارش معمول سے 9فیصد زیادہ رہی ہے، لیکن اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ، مغربی بنگال اور منی پور جیسی ریاستوں میں معمول سے کم برسات ہونے کے سبب یہاں زرعی منظرنامہ پر پریشانیاں نظر آرہی ہیں۔ ان ریاستوں میں موسم خریف کی کھیتی متاثر ہوئی ہے اور خاص طور سے ان علاقوں میں دھان کی پیداوار کے اہداف کے ساتھ ساتھ آئندہ ربیع فصلوں کی ریکارڈ پیداوار سے متعلق تشویشات نظر آرہی ہیں۔ ایسے میں اس موضوع پر 7ستمبر کو زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر(Union Minister of Agriculture and Farmers Welfare)نریندر سنگھ تومر کی صدارت میں منعقد نیشنل ایگریکلچر کانفرنس-2022میں اسٹرٹیجک اقدام کرنے پر غوروخوض کیا گیا ہے۔
غور طلب ہے کہ اگست 2022کے آخر میں یہ پایا گیا ہے کہ ملک میں خریف سیزن کی بوائی آخری دور میں پہنچنے کے باوجود رواں سیزن میں فصلوں کا کل رقبہ گزشتہ سال 2021کے مقابلہ تھوڑا کم ہے۔ حال ہی میں وزارت زراعت اور کسان بہبود محکمہ کے ذریعہ جاری تازہ اعداد و شمار کے مطابق 2ستمبر تک ملک میں خریف فصلوں کا کل رقبہ 1.6فیصد کم ہوکر 1045.14لاکھ ہیکٹیئر رہ گیا ہے جب کہ گزشتہ سال اس وقت تک ملک میں 1061.92لاکھ ہیکٹیئر میں فصلوں کی بوائی ہوئی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ دھان پیدا کرنے والی ریاستوں میں بارش کم ہونے کے سبب رواں خریف سیزن میں اب تک دھان کی فصل کا رقبہ 5.62فیصد کم ہوکر 383.99لاکھ ہیکٹیئر رہ گیا ہے۔ ایک سال قبل کی اسی مدت میں دھان کی بوائی 406.89لاکھ ہیکٹیئر میں کی گئی تھی۔ دھان اہم خریف فصل ہے اور اس کی بوائی جون سے جنوب مغربی مانسون کی شروعات کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور اکتوبر سے کٹائی کی جاتی ہے۔ لیکن دھان کی فصل کے برعکس کپاس کی بوائی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ رواں سیزن میں ماہ اگست کے آخر تک پورے ملک میں کپاس کا رقبہ 6.81فیصد بڑھ کر 125.69لاکھ ہیکٹیئر پہنچ گیا جو گزشتہ سال اسی مدت میں 117.68لاکھ ہیکٹیئر تھا۔ کپاس کا بوائی علاقہ عام علاقہ 125.57لاکھ ہیکٹیئر کے بھی پار پہنچ گیا۔ دھان کے علاہ رواں خریف سیزن میں ماہ اگست کے آخر تک 129.55لاکھ ہیکٹیئر کے ساتھ دالوں کی بوائی میں معمولی کمی آئی ہے۔
غورطلب ہے کہ سال 2022میں بے وقت مانسون اور مانسون کی بے رخی نے آنے والے ربیع سیزن کی فصلوں کے لیے بھی سنگین چیلنج پیدا کردیا ہے۔ مٹی میں نمی کی کمی ملک کی مشرقی ریاستوں میں ربیع کی کھیتی اور آب و ہوا کے منظرنامہ کو بری طرح متاثر کرسکتی ہے۔ ایسے میں موڈیز انویسٹر سروس(موڈیز) نے ملک میں بڑھتی شرح سود اور بے وقت مانسون کے سبب ہندوستان کی معاشی ترقی کے اندازہ کو کم کردیا ہے۔ اس سے پہلے موڈیز نے مئی 2022میں ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)میں 8.8فیصد اضافہ کا اندازہ لگایا تھا، جسے اب کم کرکے 7.7فیصد کردیا ہے۔
یقینی طور پر اس مرتبہ کے بے وقت مانسون اور مانسون کی بے رخی کے سبب ملک کی زراعت کے سامنے جو سنگین چیلنجز پیدا ہوگئے ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ذریعہ جلدازجلد اسٹرٹیجک تیاری ضروری ہے۔ جہاں ابھی ربیع سیزن میں کھیتی کی تیاریوں پر تیزی لانے کی کوششیں کرنی ہوں گی، وہیں خریف سیزن کی مانسون سے متاثر کھیتی کے مدنظر ضروری طریقوں کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس وقت حکومت نے چھوٹی جوت کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کھیتی کے کانسیپٹ کو نافذ کیے جانے کے ساتھ ساتھ کم لاگت والی کھیتی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے قدرتی اور نامیاتی کھیتی کو آگے بڑھانے کی جو مہم چلائی ہے، اسے آگے بڑھانا ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک میں دالوں اور تیل کے بیجوں کی اعلیٰ درجہ کی کاشتکاری سے لیب ٹو لینڈ اسکیم کے استعمال اور سائنسدانوں کی شراکت داری کے ساتھ پالیسی ساز حمایت کی پالیسی سے تیل کے بیجوں کی مہم کو تیزی سے آگے بڑھایا جانا ہوگا۔ اس وقت پورے ملک میں اعلیٰ قسم کے بیجوں کی سپلائی کے لیے مرکزی حکومت دالوں اور تل کے بیجوں کے کسانوں کو مفت منی کٹ تقسیم کررہی ہے۔ اس کے لیے آب و ہوا پر مبنی نشان زد گاؤوں کو دلہن گاؤں قرار دیا گیا ہے، جہاں تحقیقی مراکز کے سائنسدانوں کی دیکھ ریکھ میں دلہنوں اور تلہنوں کے بیجوں کی فصلوں کی کھیتی کی جارہی ہے۔ ایسی کوششوں کو کارگر بنایا جانا ہوگا۔
یقینی طور پر ہندوستان کو زراعت میں مسلسل آگے بڑھنے کے لیے ابھی غذائی اجناس کے علاوہ دیگر سبھی فوڈ پروڈکٹس میں خودانحصاری کے لیے میلوں چلنے کی ضرورت ہے۔ کھانے کے تیلوں کی پیداوار میں اضافہ کے لیے حکومت نے 11,000کروڑ کی لاگت سے بہت زیادہ پرامید تلہن مشن کی شروعات کی ہے، اسے مکمل طور پر کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ تلہن کی پیداوار کے لیے کئی اور نئے قدم اٹھائے جانے ہوں گے۔تلہن کی فصلوں کا رقبہ بڑھانے کے ساتھ پیداوار میں اضافہ کے لیے خصوصی توجہ جینیٹکلی موڈیفائڈ(جی ایم) اعلیٰ قسم کے ہائبریڈ بیجوں پر دینی ہوگی۔ تلہن کی فصلوں کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جانی ہوگی۔ زراعت کے ڈیجیٹلائزیشن کو ترجیحی بنیاد پر بڑھانا ہوگا۔ کسانوں اور زراعت سے متعلق اطلاعات کو بہتر لین دین کے لیے زرعی معلومات کے نظام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نیشنل ای-گورنینس اسکیم کو مضبوط کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ کسانوں کو بہتر تکنیک فراہم کرانے کے ساتھ ہی بھومی ریکارڈ کے ڈیجیٹلائزیشن اور کیڑے مار دواؤں کے چھڑکاؤ میں ڈرون تکنیک مدد زیادہ استعمال کرنی ہوگی۔
ہم امید کریں کہ حکومت سال2022میں بے وقت مانسون کے چیلنجز کے مدنظر مختلف زرعی ترقیاتی پروگراموں اور غذائی اجناس، تلہن اور دلہن کی پیداوار بڑھانے کے لیے نافذ کی گئی نئی اسکیموں کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل زرعی مشن کے کارگر نفاذ کی ڈگر پر تیزی سے آگے بڑھے گی۔ ہم امید کریں کہ حکومت زراعت، مویشی پروری اور فوڈپروسیسنگ سیکٹر میں جدیدکاری اور زرعی شعبہ میں فصلوں کے تنوع کی ڈگر پر تیزی سے آگے بڑھے گی۔ ایسے میں مختلف طریقوں سے اس وقت بے وقت مانسون اور مانسون کی بے رخی کی وجہ سے ملک کے زرعی نقشہ پر ہندوستانی زراعت کے چیلنجز کی جو تصویر ابھر رہی ہے، اس میں بہت کچھ بہتری ہوسکے گی۔
(مضمون نگار ماہر معاشیات ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS